10 رمضان المبارک یومِ وصال: غمگسارِ رسول اُمّ المؤمنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

 

 

10 رمضان المبارک یومِ وصال

غمگسارِ رسول اُمّ المؤمنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

وہ   ام  المسلمین  جو مادر  گیتی  کی   عزت  ہے

وہ ام المسلمین قدموں کے نیچے جس کی جنت ہے

خدیجہ   طاہرہ   یعنی  نبی   کی   باوفا   بی  بی

شریک   راحت   و   اندوہ  پابندِ   رضا   بی بی

دیارِ  جاودانی  کی  طرف راہی  ہوئیں  وہ  بھی

گئے دنیا سے آخر سوئے فردوسِ بریں وہ بھی

اس خاکدان گیتی پر روزانہ انگنت اور بے شمار افراد جنم لیتے ہیں اور اپنی زندگی کی مقررہ میعاد پوری کرکے داعی اجل کے حضور لبیک بول کر اس دارفانی کو الوداع کہہ جاتے ہیں۔اگر انہوں نے اس عالم رنگ و بو میں کسی بھی شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیا ہے تو تاریخ کے پنے انہیں مدت مدید تک مقید کرلیتے ہیں ورنہ صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتے ہیں۔آپ تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ جہاں ایک طرف ایسے افراد بھی ہیں جو دنیاوی نظم و نسق اور اس کے فلاح و بہبود میں اپنی زندگی صرف کی اور دنیادار کا لبادہ اوڑھے دنیا کو خیرآباد کہا وہیں کچھ ایسے اشخاص بھی ہیں جنہوں نے اپنی قیمتی زندگی دین و سنیت کے فروغ و استحکام اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں صرف کی اور حیات اخروی کو سجانے سنوارنے میں ہمہ دم کوشاں رہے اور دین کا علم بردار بن کر دنیا سے رخصت ہوئے۔اور اس ہی دنیا میں بے شمار انسان پیدا ہوئے جن میں سے اکثر ایسے ہوئے کہ ان میں کوئی کمال و خوبی نہیں اور بعض لوگ ایسے ہوئے جو صرف چند خوبیاں رکھتے تھے مگر حضرت سیدتنا خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ  کی وہ ذات گرامی ہے اور وہ ذاتِ بابرکات ہے جو بہت سے کمال و خوبیوں کی جامع ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے سرورِ کائنات، فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتہ زوجیت میں منسلک ہوئیں اور امّ المومنین یعنی قیامت تک کے سب مومنین کی ماں ہونے کے پاکیزہ و اعلیٰ منصب پر فائز بھی ہوئیں ہیں ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا کی حیات میں کسی اور سے نکاح نہیں فرمایا ، آپ رضی اللہ عنہا سے کبھی کوئی ایسی بات سرزد نہیں ہوئی جس سے سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے غضب فرمایا ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے آپ ہی سے ہوئی۔

اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ أم المؤمنين حضرت خديجة الكبرى سلام اللہ علیہا کی ذات بابرکات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ کا تعارف جب قدم قدم پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود فرما دیا ہو اور یہاں تک فرما دیا ہو کہ جب زمانہ تکذیب کر رہا تھا تو آپ رسالت کی تصدیق کر رہی تھیں تو ایسی صورت میں زبان رسول اکرم صلی الہ علیہ وآلہ وسلم سے ادا ہونے والے الفاظ جناب خدیجتہ الکبری سلام اللہ علیہا کے تعارف کے لئے کافی ہیں۔

ولادت اور نام و نسب: 

ولادت با سعادت عام  الفیل سے 15 سال پہلے ہے۔  نام خدیجہ والد کا نام خویلد اور والدہ کا نام فاطمہ ہے۔ والد کی طرف سے آپ کا نسب اس طرح ہے: " خُویلد بن اسد بن عبد العزى بن قُصَى بن كلاب بن مرة بن كَعْب بن لوی بن غالب بن فهر۔اور والدہ کی طرف سے یہ ہے : ” فاطمہ بنت زائدة بن أصَم بن هرم بن رواحه بن حجر بن عبد بن ص بن عامر بن لؤي بن غالب بن فهر ۔(فیضان خدیجہ الکبریٰ،ص:34)۔ 

 رسولِ خد اصلى اللہ علیہ وسلم سے نسب کا اتصال 

نسب کے حوالے سے آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنھنّ کی نسبت سب سے کم واسطوں سے آپ کا نسب رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے نسب شریف سے مل جاتا ہے۔ واضح رہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نسب کے حُضورِ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  کے نسب شریف کے ساتھ ملنے میں صرف تین واسطے پائے جاتے ہیں : (1) خويلد، (2) آمد اور (3) عبد الغزي۔  چوتھے جد امجد حضرت قصیّ میں آپ کا نسب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے ملتا ہے جو پیارے آقاصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے پانچویں جد محترم ہیں جبکہ ام المؤمنین حضرت سیدنا ام حبیبہ رضی الله تعال عنہا کے نسب کے پیارے آقا صلى الله تعال علیہ والہ وسلم کے نسب شریف کے ساتھ ملنے میں واسطے زیادہ (چار واسطے ) پائے جاتے ہیں: (1). ابوسفيان ،(2).حزب (3).عبد شمس (4) أميہ ۔ لیکن سب سے قریب عبد مناف میں ملتا ہے جو پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم کے چوتھے اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پانچویں جد محترم ہیں۔ 

حضرت  سیدنا علامہ نور الدین علی بن ابراہیم علیہ رحمتہ اللہ الکریم نے نسب کے حوالے سے آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی ایک اور خصوصیت بیان فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ قصیّ کی اولاد میں سے صرف آپ اور حضرت ام حبیب رضی اللہ عنہا ہیں جنہوں نے سید الانبیاء محبوب کبریا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا شرف حاصل کیا۔ ( فیضان خدیجہ الکبریٰ ، ص:35)۔

قریش کی ایک باکردار خاتون 

حضرت سید نا خديجة الكبرى رضى الله تعالی عنہا قبیلہ قریش کی ایک بہت ہی باہمت ، بلند حوصلہ اور زیرک ( عقل مند) خاتون تھیں، اللہ عزوجل نے آپ رضی اللہ عنہا کو بہت بہترین اوصاف سے نوازا تھا جن کی بدولت آپ رضی اللہ عنہا جاہلیت کے دور شر و فساد میں ہی طاہرہ کے پاکیزہ لقب سے مشہور ہو چکی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی اعلیٰ صفات اور اعزازات کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی سہیلی حضرت سیدتنا نفیسہ  بنت مثير رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "كَانَتْ خَدِيجَةً بِئْتُ خُوَيْلِي امْرَأَةٌ حَازِمَةٌ جَلْدَةً شَرِيفَةً مَعَ مَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَا مِنَ الْكَرَامَةِ وَالْخَيْرِ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ أَوْسَطُ قُرَيْشٍ نَسَبًا وَأَعْظَمُهُمْ شَرَفًا وَأَكْثَرَهُمْ مالا" یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا دور اندیش، سلیقہ شعار، پریشانیوں اور مصیبتوں کے مقابلے میں بہت بلند حوصلہ و ہمت رکھنے والی اور معزز خاتون تھیں، ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللّٰہ عنہا کو عزت و شرف اور خیر و بھلائی سے بھی خوب نوازا تھا، آپ رضی اللہ عنہا قریش میں اعلیٰ نسب رکھنے والی ، بہت ہی بلند رتبہ اور سب سے زیادہ مالدار خاتون تھیں۔

آپ رضی اللہ عنہا کے کچھ اہم خصوصیات 

  •     آپ دنیا کی وہ پہلی ہستی ہیں جنہوں نے اسلام قبول فرمایا۔
  •   آپ نے سب سے پہلے رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق فرمائی.
  •  دنیا کی پہلی خاتون ہیں جنہیں حرم رسول میں شرف زوجیت حاصل ہوا۔
  •  پہلی خاتون ہیں جنہوں نے سب سے پہلے فریضہ نماز ادا کیا۔
  • آپ واحد خاتون ہیں جن سے آل محمد اور نسل نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کا سلسلہ جاری ہوا۔
  • رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام عمر آپ کی رفاقت اور ایثار کو یاد فرمایا۔
  • آپ اسلام کی بہت بڑی محسنہ ہیں ۔
  •  آپ وہ ہستی ہیں جنہوں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نصرت فرمائی۔
  • آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اپنی ساری دولت نچھاور کردی ۔
  •  جب تک آپ زندہ رہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔
  •   آپ امہات المومنین میں وہ واحد ہستی ہیں جن سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پر ام المومنین حضرت عائشہ رشک فرماتی تھیں۔
  • رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے لواحقین اور متعلقین تک سے شفیقانہ سلوک فرماتے تھے۔ 
  • حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے سال وفات کو رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام الحزن رغم کا سال قرار دیا۔

اور حضرت سیدتنا خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت ہی زیادہ مال دار خاتون تھیں، دیگر قریشیوں کی طرح آپ رضی اللہ عنہا بھی تجارت کیا کرتی تھیں، عام لوگوں کی نسبت آپ رضی اللہ تعالی عنہا کا سامان تجارت بہت زیادہ ہو تا تھا۔ روایت میں ہے کہ صرف آپ رضی اللہ عنہا کے مال تجارت سے لدے اونٹ عام قریشیوں کے اونٹوں کے برابر ہوتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا لوگوں کو مزدور بھی رکھتی تھیں اور مضاربت  (Investment) کے طور پر بھی مال دیا کرتی - تھیں۔ چنانچہ ہر تاجر کی طرح آپ رضی اللہ عنہا  کو بھی ایسے ذِی شعور سمجھ دار ہوشیار ، باصلاحیت اور سلیقہ مند افراد کی ضرورت رہتی ہو گی جو امین اور دیانت دار بھی ہوں۔

ادھر سر کار نامدار، مکے مدینے کے تاجدار ، دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و سلم کے حسن اخلاق، راست بازی، ایمان داری اور دیانت داری کا شہرہ ہر خاص و عام کی زبان پر تھا، آپ صلی اللہ تعال علیہ والہ وسلہ اپنے غیر معمولی اخلاقی و معاشرتی اوصاف کی بنا پر اخلاقی پستی کے اُس دور جاہلیت میں ہی امین کہہ کر پکارے جانے لگے تھے۔ حضرت سیدتنا خدیجہ رضی اللہ عنہا تک بھی اگر چہ آپ صلى الله تعالی علیہ وعلیہ وسلم کی ان صفات عالیہ کی شہرت پہنچ چکی تھی اور اس وجہ سے آپ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو اپنا سامان دے کر تجارتی قافلے کے ساتھ روانہ بھی کرنا چاہتی تھیں لیکن یہ خیال کر کے کہ پتا نہیں حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اسے قبول فرمائیں گے بھی یا نہیں، اپنا ارادہ ترک کر دیتیں۔

سفرِ آخرت : ام المومنین حضرت سیدتنا خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سرکار نامدار، مدینہ کے تاجدار، دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد تاحیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مصروف رہیں۔ بالآخر جب پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلان نبوت فرمائے دسواں سال شروع ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ کے وصال شریف کا وقت بھی قریب آگیا۔ نبوت کے دسویں سال،رمضان المبارک کے مہینے میں جب کہ ابو طالب کو وفات پائے ابھی تین یا پانچ روز ہی ہوئے تھے کہ دس تاریخ کو آپ رضی اللہ عنہا نے بھی بی اجل کو لبیک کہتے ہوئے آخرت کے سفر کا آغاز فرمایا۔ بوقت وفات آپ کی عمر 65 برس تھی۔ 

ام المؤمنین حضرت سیدتنا  خديجة الكبرى رضی اللہ عنہا  کے قدموں کی ڈھول کے صدقے اللہ عزوجل ہمیں بھی ایسا جذ بہ عقیدت اور ایسی توفیق سعید عطا فرمائے کہ ہم اپنا تن من دھن سب کچھ حضور اقدس صلى الله علیہ وسلم  پر قربان کرنے والے بن جائیں، آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی تعلیمات کو عملی طور پر اپنائیں، دین اسلام کی خوب خوب خدمت کرنے کی سعادت پائیں اور اس راہ میں آنے والی کسی بھی مشکل کو خاطر میں نہ لائیں ۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ۔

کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا

دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروروں جہاں نہیں

 

تحرير:محمد فداء المصطفیٰ گیاوی

رابطہ نمبر: 9037099731

ڈومریا ،مرشد نگر بھنگیا، گیا، بہار

تبصرے