امتحان میں کامیابی حاصل کیسے کریں!
طالبانِ علومِ نبویہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ امتحانات میں بہترین کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمت،محنت اور شدت کے ساتھ کثرتِ مطالعہ کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔ بغیر محنت کیے کوئی بھی طالب علم امتحان کیا کسی بھی میدان میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔ اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امتحان کسی طالب علم کے تعلیمی سفر کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے، جو اکثر ان کی ترقی اور کامیابی کا تعین کرتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے امتحانات کی تیاری اور کامیابی کا عمل نہ صرف علم حاصل کرنے کے بارے میں ہے بلکہ اخلاقی اقدار، نظم و ضبط، اور اللہ پر بھروسہ کرنے کا عمل بھی ہے۔ میری،امتحان میں کامیابی کے بنیادی طریقوں کو اسلامی نقطہ نظر سے اجاگر کر نے کی مکمل کوشش رہے گی اور جس میں،میں نے محنت، اخلاص، دعا، اور اخلاقی طرز عمل کو کامیابی کے کلیدی اجزاء کے طور پر پیش کی ہے۔نیک نیتی: اسلام میں ہر عمل کا آغاز نیت (اخلاص) سے ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اعمال کا دارومدار نیت پر ہے، اور ہر انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی“(صحیح بخاری)۔ ایک طالب علم کے لیے پڑھائی کا مقصد اللہ کی رضا کے لیے علم حاصل کرنا، خود کو اور دوسروں کو فائدہ پہنچانا، اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنا ہونا چاہیے۔ناکہ اس علم سے دسروں کو زیر کرنا اوراپنی صلاحیت کو سب سامنے پیش کرنا چاہیے اور یہ تو بہت غلط بات ہے کیوں کہ ا س کی شریعت بھی اجازت نہیں دیتا ہے۔ پڑھائی یا امتحان دینے سے پہلے خالص نیت کرنا ایک طالب علم کی کوششوں کو علم حاصل کرنے کے مقصد کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ ذہنیت نہ صرف طالب علم کو محنت کرنے کی ترغیب دیتی ہے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بناتی ہے کہ حاصل کردہ علم کو خالقِ کائنات اللہ رب العزت کی رضا کے لیے استعمال کیا جائے۔ جب ایک طالب علم اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پڑھتا ہے تو سیکھنے کا عمل عبادت بن جاتا ہے، اور امتحان میں کامیابی اللہ رب العزت کی برکتوں کا ذریعہ بنتی ہے اور وہ کامیاب ہوتا چلا جاتا ہے۔
محنت اور مستقل مزاجی:مذہب اسلام میں محنت اور مستقل مزاجی پر زور دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”اور انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے“۔ اس آیت کامیابی حاصل کرنے کے لیے محنت اور کوشش کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ طلباء کے لیے، مستقل مزاجی کے ساتھ محنت کرنا امتحان کی تیاری میں ضروری ہے۔ مطالعے کا شیڈول بنانا، قابل حصول اہداف مقرر کرنا، اور ایک معمول پر قائم رہنا مستقل کوشش کو یقینی بنانے کے عملی طریقے ہیں۔ باقاعدہ جائزہ، مشق، اور مواد کو اچھی طرح سے سمجھنا ایک طالب علم کی کارکردگی میں نمایاں فرق پیدا کر سکتا ہے۔ اسلام وقت کے دانشمندانہ استعمال کی ترغیب دیتا ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں موجود ہے: ”پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ: اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو بیماری سے پہلے، اپنی دولت کو غربت سے پہلے، اپنے فارغ وقت کو مصروفیت سے پہلے، اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے“(متفق علیہ)۔
عاجزی کے ساتھ علم حاصل کرنا:دینِ اسلام علم کے حصول کی ترغیب دیتا ہے، بشرطیکہ عاجزی اور کھلے ذہن کے ساتھ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک حدیث ہے: ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے“(سنن ابن ماجہ)۔ اس علم کا حصول عاجزی کے ساتھ ہونا چاہیے، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ حقیقی علم اللہ کی طرف سے ہے اور انسان کو ہمیشہ سیکھنے اور بڑھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ سیکھنے کے عمل میں عاجزی کا مطلب ہے کہ شک کی صورت میں سوال کرنا، اساتذہ اور ساتھیوں سے مدد لینا، اور تعمیری تنقید کے لیے تیار رہنا۔ یہ رویہ نہ صرف مواد کو بہتر سمجھنے میں مدد دیتا ہے بلکہ مثبت خیالی کے ماحول کو بھی فروغ دیتا ہے۔ طلباء کو یاد رکھنا چاہیے کہ غرور اور حد سے زیادہ اعتماد ناکامی کا باعث بن سکتے ہیں، جبکہ عاجزی مستقل بہتری اور کامیابی کے دروازے کھولتی ہے۔
اخلاقی طرز عمل اور دھوکہ دہی سے خود کو بچاؤ: دین اسلام کسی بھی شکل میں دھوکہ دہی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری حدیث ہے:”جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے“ (صحیح مسلم)۔ یہ اصول امتحانات پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ دھوکہ دہی نہ صرف ایک بے ایمانی عمل ہے بلکہ اساتذہ، والدین، اور ساتھیوں کی طرف سے طالب علم پر رکھے گئے اعتماد کی خلاف ورزی بھی ہے۔ساتھ ہی امانت میں خیانت بھی ہے۔ امتحان میں اللہ رب العزت کی رضا کے مطابق کامیابی حاصل کرنے کے لیے طلباء کو کسی بھی قسم کی بے ایمانی سے دور رہنا چاہیے، بشمول دوسروں سے نقل کرنا، غیر مجاز مواد کا استعمال کرنا، یا کسی بھی قسم کے دھوکہ دہی کے طریقے اختیار کرنا۔ امتحان کے دوران اخلاقی طرز عمل یہ یقینی بناتا ہے کہ حاصل کردہ کامیابی حقیقی اور اللہ کی طرف سے برکت شدہ ہے۔ اس کے علاوہ، یہ ایک مضبوط کردار اور دیانت داری کو فروغ دیتا ہے، جو کہ تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی کے لیے ضروری خصوصیات ہیں۔
دعا کی طاقت: دعا، یعنی اللہ سے مناجات اور لو لگانے کا دوسرا عمل ہے اور یہ دین اسلام میں ایک طاقتور ہتھیارہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکھایا اور بتایا ہے کہ دعا انسان کی تقدیر بدل سکتی ہے اور بڑے بڑے مسائل باآسانی حل کر سکتی ہے۔ پڑھائی شروع کرنے سے پہلے، دوران، اور بعد میں، طلباء کو دعا کرنی چاہیے، اللہ سے فہم، علم کے حفظ اور امتحان میں کامیابی کی دعا کرنی چاہیے۔ علم کو مستحکم بنانے کے لیے ایک مشہور دعا ہے: ”ربی زدنی علما“ (اے میرے رب، میرے علم میں اضافہ فرما)۔ دعا ایک طالب علم کو اللہ سے جوڑ دیتا ہے اور تعلیمی سفر کے ہر مرحلے پر اس کی مدد مانگنے کا ذریعہ بناتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ ذہنی سکون لاتا ہے، اضطراب اور تناؤ کو کم کرتا ہے، اور اللہ کی مدد پر بھروسہ کرنے والے اعتماد کا باعث بنتا ہے۔
جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھنا: اسلام جسم اور دماغ دونوں کی صحت کی حمایت کرتا ہے اور صحت کو معتدل رکھنے کی تلقین کرتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرسکون حدیث ہے: ”تمہارے جسم کا تم پر حق ہے“ (صحیح بخاری)۔ امتحان کی تیاری کے دوران، طلباء کے لیے اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مناسب نیند، متوازن غذا، باقاعدہ جسمانی سرگرمی، اور مطالعے کے دوران مختصر وقفے لینا توانائی کی سطح اور توجہ کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہیں۔ ذہنی صحت کے لیے نماز، ذہنی سکون کے لیے مشق، اور تناؤ کو کم کرنے والی سرگرمیوں جیسے کہ خاندان کے ساتھ وقت گزارنا یا مشاغل میں شامل ہونے سے فروغ دیا جا سکتا ہے۔ ایک صحت مند جسم اور دماغ امتحان کے دباؤ کو بہتر طریقے سے سنبھالنے اور بہترین کارکردگی دکھانے کے قابل ہوتا ہے۔
اللہ پر بھروسہ (توکل): کوشش کرنے کے بعد، ایک مسلمان کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے، یہ یقین رکھتے ہوئے کہ نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس تصور کو توکل کہتے ہیں۔ قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے جس کا مفہوم ہے: ”اور جب تونے فیصلہ کر لیا، تو اللہ پر بھروسہ رکھ۔ بے شک، اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں“۔توکل کا مطلب یہ نہیں کہ کوشش کو نظر انداز کیا جائے؛ بلکہ، اس کا مطلب ہے کہ اپنی بہترین کوشش کریں اور پھر نتائج کو اللہ کے سپرد کر دیں۔ اللہ پر یہ بھروسہ ناکامی کے خوف کو دور کرنے اور اطمینان کا باعث بنتا ہے کہ جو بھی نتیجہ ہو، وہ الہی منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ رویہ ایک اہم رول ادا کر سکتا ہے اور امتحانات کے نتائج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے، چاہے وہ توقع کے مطابق ہوں یا نہیں۔
آخر میں یہ سمجھیں کہ، امتحانات میں کامیابی صرف تیاری پر منحصر نہیں بلکہ کچھ اہم اور جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے جو خالص نیت، محنت، اخلاقی طرز عمل، دعا، اور اللہ پر بھروسہ کو یکجا کرتا ہے۔ ان اصولوں پر عمل کرکے، طلباء نہ صرف اپنے امتحانات میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ایسی خصوصیات بھی پیدا کر سکتے ہیں جو ان کی زندگی بھر کے لیے فائدہ مند ہوں گی۔ مذکورہ بالا طریقے طلباء کے لیے اپنے مطالعے میں کامیابی حاصل کرنے کا ایک راستہ فراہم کرتی ہے۔ جب ان ذرائع سے امتحانات میں کامیابی حاصل ہوتی ہے، تو یہ نہ صرف ذاتی کامیابی ہوتی ہے بلکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا بھی ہوتاہے، جو معاشرے میں مثبت خیالی کو ظاہر کرتی ہے۔
تحریر:محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ
رابطہ نمبر:9037099731
ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی،ملاپورم،کیرالا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں