سال26- 2025 اور بجٹ: ایک تقابلی جائزہ
حالیہ بجٹ کے تجزیے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت نے اپنے مجموعی اخراجات میں نمایاں کمی کی ہے، جس کا براہِ راست اثر سماجی شعبے، بالخصوص صحت اور تعلیم پر پڑا ہے۔ صحت کے شعبے میں ہونے والے بجٹ تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مرکزی حکومت اس بنیادی شعبے کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔ حالانکہ 2024-25 کے تخمینی بجٹ میں 94,671 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، جو اس سال بڑھ کر 1,03,851 کروڑ روپے تک پہنچ گئے ہیں، تاہم اس 9,180 کروڑ روپے کے اضافے کے باوجود اگر افراط زر کو مدِنظر رکھا جائے تو حقیقی اضافہ محض 3 فیصد کے لگ بھگ رہ جاتا ہے۔ مزید برآں، مجموعی صحت کا بجٹ جی ڈی پی کے تناسب سے 0.37 فیصد سے کم ہو کر 0.29 فیصد رہ گیا ہے، جب کہ مجموعی بجٹ میں بھی صحت کا حصہ 2.06 فیصد سے گھٹ کر 2.05 فیصد ہو چکا ہے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اسکیمیں نافذ کی گئی ہیں، جن میں نیشنل ہیلتھ مشن، پردھان منتری سواستھ سرکشا یوجنا اور دیگر صحت سے متعلق اسکیمیں شامل ہیں، مگر بدقسمتی سے ان اسکیموں کے بجٹ میں کٹوتی کی گئی ہے۔ اس کے برخلاف، پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا اور ڈیجیٹل ہیلتھ مشن کے لیے مختص بجٹ میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر بنیادی صحت کی سہولیات میں بہتری نہیں لائی گئی، تو انشورنس پر مبنی اسکیموں کے ذریعے عوامی صحت کے نظام کو مؤثر نہیں بنایا جا سکتا۔ خاص طور پر، بچوں کی ٹیکہ کاری، زچگی کے محفوظ طریقے اور دیہی سطح پر خدمات انجام دینے والی آشا ورکرز کے مشاہرے میں اضافہ نہایت ضروری ہے۔
جہاں تک تعلیم کے بجٹ کا تعلق ہے، تو مجموعی طور پر وزارتِ تعلیم کے بجٹ میں 8,000 کروڑ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ 2024-25 میں وزارتِ تعلیم کے لیے 1,20,628 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، جو 2025-26 میں بڑھ کر 1,28,650 کروڑ روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ اسکولی تعلیم کے لیے 78,572 کروڑ روپے جبکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے 50,078 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تاہم، جی ڈی پی کے تناسب سے وزارتِ تعلیم کا بجٹ 0.37 فیصد سے کم ہو کر 0.36 فیصد پر آ گیا ہے، جب کہ مجموعی بجٹ میں اس کا حصہ 2.78 فیصد سے کم ہو کر 2.54 فیصد رہ گیا ہے۔
تعلیمی بجٹ میں کمی کے باعث کئی اہم تعلیمی منصوبے متاثر ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، حکومت نے آر ٹی ای (رائٹ ٹو ایجوکیشن) ایکٹ کے نفاذ کے لیے سمگر شکشا ابھیان کو نافذ کیا تھا، لیکن اس اسکیم کے لیے مختص بجٹ میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہیں کیا گیا۔ 2024-25 میں اس اسکیم کے لیے 37,373 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، جو اس سال محض 37,453 کروڑ روپے تک بڑھائے گئے ہیں، جو کہ نہایت معمولی اضافہ ہے۔ تعلیم کے بجٹ میں اس کمی سے حکومت کے تعلیمی ترقی کے دعوے کمزور ہوتے نظر آتے ہیں۔ مجموعی طور پر، یہ بجٹ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں کے حوالے سے غیر متوازن نظر آتا ہے۔ صحت کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری، دیہی علاقوں میں طبی سہولیات کی فراہمی اور جدید طبی آلات کی خریداری کے لیے مزید وسائل کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، تعلیمی نظام کی ترقی، سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور اساتذہ کی تربیت کے لیے مناسب بجٹ مختص کرنا نہایت ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان بنیادی شعبوں پر توجہ دے تاکہ ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔
سال 2025-26 کے بجٹ میں قبائلی ترقی کے لیے 1292 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو کہ کل اسکیم بجٹ کا محض 8 فیصد بنتا ہے۔ ٹرائبل سب پلان/ڈیولپمنٹ ایکشن پلان کے تحت مختلف وزارتوں اور محکموں کی جانب سے قبائلی برادریوں کے لیے مختص کیے گئے بجٹ میں نمایاں تفاوت دیکھی جا سکتی ہے۔ ان میں کوئلہ کی وزارت نے سب سے زیادہ بجٹ (42 فیصد) مختص کیا ہے، اس کے بعد اعلیٰ تعلیم (32 فیصد)، شمال مشرقی ترقیاتی امور (29 فیصد)، دیہی ترقی (13 فیصد)، اور اسکولی تعلیم (12 فیصد) کے شعبے شامل ہیں۔ دوسری جانب وزارت معدنیات، پٹرولیم، کوآپریشن، کامرس اور صارفین کے امور جیسے اہم محکمے قبائلیوں کی ترقی کے لیے ایک فیصد سے بھی کم بجٹ رکھتے ہیں، جو اس حوالے سے حکومتی ترجیحات پر سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔
مرکزی وزارت برائے قبائلی امور کو مجموعی ڈیولپمنٹ ایکشن پلان بجٹ کا 10 فیصد حصہ دیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس وزارت کا مکمل بجٹ قبائلی برادریوں کی ترقی کے لیے وقف ہوگا۔ تاہم، اس کے مؤثر نفاذ کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ قبائلی علاقوں میں بنیادی سہولیات اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے ''پردھان منتری آدی گرام آدرش یوجنا'' کے تحت 2025-26 میں 2000 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس اسکیم کا بنیادی مقصد قبائلی اکثریتی دیہات کو ماڈل ولیج میں تبدیل کرنا ہے، جہاں صحت، تعلیم، روزگار اور ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ فی الوقت، اس اسکیم کے تحت 36,428 گاؤں کو شامل کیا گیا ہے، جو کہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ اسی طرح، قبائلی بچوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے ''اکلویہ ماڈل رہائشی اسکول'' کے لیے 7088 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، اور حکومت نے 740 اسکولوں کو مکمل طور پر قبائلی علاقوں میں قائم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اگر ان تمام منصوبوں کو مؤثر انداز میں نافذ کیا جائے تو قبائلی برادریوں کی سماجی اور اقتصادی ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم، عملی سطح پر ان اسکیموں کے ناقص نفاذ اور غیر مؤثر منصوبہ بندی کی وجہ سے قبائلی عوام ان فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بجٹ کی منصوبہ بندی اور اس کے عملی نفاذ میں مزید شفافیت، شمولیت اور جوابدہی کی ضرورت ہے تاکہ ان اسکیموں کے حقیقی ثمرات قبائلی برادریوں تک پہنچ سکیں۔
دلتوں کی ترقیاتی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے، مرکزی حکومت نے 1979 میں ایک مخصوص بجٹ حکمت عملی متعارف کرائی، جسے ''اسپیشل کمپوننٹ فار شیڈول کاسٹ'' (SCP) کہا جاتا تھا۔ اس حکمت عملی کا مقصد دلت برادریوں کی ہمہ جہتی ترقی کو یقینی بنانا تھا۔ موجودہ مالی سال 2025-26 میں اس اسکیم کے تحت 168478 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو کہ گزشتہ مالی سال کے 165598 کروڑ روپے کے بجٹ سے قدرے زیادہ ہے۔SCP کے تحت، حکومتی منصوبہ بندی میں دلتوں کی آبادی کے تناسب سے مختلف اسکیموں کے لیے بجٹ مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یعنی، اگر قومی سطح پر دلتوں کی آبادی کل آبادی کا 16 فیصد ہے، تو مختلف وزارتوں اور محکموں کو اپنی اسکیموں اور پروگراموں میں دلتوں کے لیے بھی کم از کم 16 فیصد بجٹ اور فوائد مختص کرنے ہوں گے۔ اس کے تحت مرکزی حکومت نے مختلف وزارتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ دلتوں کی ضروریات کے مطابق خصوصی اسکیمیں اور پروگرام تیار کریں، اور ان کے لیے مخصوص منصوبے مرتب کریں تاکہ ان کی ترقیاتی ضروریات پوری کی جا سکیں۔
ایس سی پی حکمت عملی کے تحت دلتوں کے لیے مختص ترقیاتی فنڈز کو ایک مخصوص ''بجٹ کوڈ'' کے تحت رکھا جاتا ہے، جو کہ تفصیلی بجٹ دستاویز میں ''Minor Head 789'' کے عنوان سے درج ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دلتوں کے لیے مختص فنڈز کو کسی اور مقصد یا کسی دوسرے طبقے کی ضروریات کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ تاہم، عملی طور پر بجٹ میں عدم مساوات، فائدہ اٹھانے والوں کے درست اعداد و شمار کا فقدان، فنڈز کے کم استعمال، اور بجٹ کی دیگر شعبوں میں منتقلی جیسے مسائل اس منصوبے کے نفاذ میں بڑی رکاوٹیں بنے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں، ڈیولپمنٹ ایکشن پلان کی حکمت عملی کو قومی سطح پر اور باقی ریاستوں میں آندھرا پردیش، تلنگانہ، اور کرناٹک کے ماڈل کے تحت نافذ کرنے کی ضرورت ہے، جہاں ان اسکیموں کے بہتر نتائج دیکھنے میں آئے ہیں۔
سال 2025-26 میں مرکزی حکومت کے چائلڈ بجٹ اسٹیٹمنٹ کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں سے متعلقہ اسکیموں کے لیے 116132 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ رقم پچھلے مالی سال 2024-25 کے مقابلے میں معمولی اضافے کی عکاسی کرتی ہے۔ تاہم، مرکزی بجٹ میں بچوں کے لیے مختص رقم 2.3 فیصد ہے، جو کہ گزشتہ سال بھی یہی تھی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بچوں کے بجٹ میں عملی طور پر کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ 2016 میں متعارف کردہ نیشنل ایکشن فار چلڈرن نے اس بات کی سفارش کی تھی کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے مجموعی بجٹ کا کم از کم 5 فیصد حصہ بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے مختص کیا جانا چاہیے۔ اس کے باوجود، موجودہ بجٹ میں بچوں کے لیے مختص حصہ صرف 2.3 فیصد پر برقرار ہے، جو کہ ایک تشویشناک امر ہے اور حکومت کی ترجیحات پر سوال اٹھاتا ہے۔
دلتوں اور بچوں کے لیے مختص بجٹ میں اگرچہ معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، لیکن بجٹ کے شفاف اور مؤثر نفاذ کی ضرورت بدستور باقی ہے۔ دلتوں کے ترقیاتی منصوبوں میں بجٹ کے بہتر استعمال اور اس کی مربوط نگرانی ضروری ہے تاکہ فنڈز کا ضیاع اور غلط استعمال روکا جا سکے۔ اسی طرح، بچوں کے لیے مختص بجٹ کو عالمی معیار اور قومی سفارشات کے مطابق 5 فیصد کی حد تک بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی صحت، تعلیم اور ترقی سے جڑے مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکے۔ حکومت کی بجٹ ترجیحات کے تجزیے سے واضح ہوتا ہے کہ بچوں کے لیے مختص بجٹ میں سب سے زیادہ توجہ تعلیم کے شعبے پر دی گئی ہے۔ بچوں کے کل بجٹ میں 77.5 فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا گیا ہے، جبکہ صحت پر صرف 3.4 فیصد، غذائیت کے لیے 17.4 فیصد، اور بچوں کے تحفظ پر محض 1.7 فیصد بجٹ رکھا گیا ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بچوں کی صحت اور تحفظ کو حکومتی پالیسی میں ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔
حکومت بچوں کی غذائیت کو بہتر بنانے کے لیے ''سکشم آنگن واڑی'' اور ''پوشن اسکیم'' چلا رہی ہے، لیکن ان دونوں اسکیموں کے لیے مختص بجٹ میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر پوشن اسکیم کے تحت مختص بجٹ ناکافی ثابت ہو رہا ہے۔ اسی طرح، تعلیم کے شعبے کو ترجیح ضرور دی گئی ہے، لیکن سمگر شکشا کے تحت موجودہ مختص بجٹ بھی تعلیمی ترقی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ کورونا وبا اور حالیہ حکومتی تعلیمی سروے کے مطابق، بچوں کی ایک بڑی تعداد نے اسکول چھوڑ دیا ہے۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے ان بچوں کو دوبارہ اسکول لانے اور ان کی تعلیمی قابلیت کو بہتر بنانے کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو مزید مؤثر تعلیمی اسکیمیں بنانے اور بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف بجٹ مختص کرنا کافی نہیں، بلکہ اس کے درست استعمال اور مؤثر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔
حکومت کی جانب سے بچوں کے تحفظ کے لیے مختص بجٹ نہایت کم ہے، جس کے باعث اس شعبے کی اسکیمیں مالی وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ چائلڈ ہیلپ لائن اسکیم کو بھی درکار توجہ نہیں دی گئی، لہٰذا حکومت کو اس اسکیم کے لیے بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ ضرورت مند بچوں کو بہتر تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
''مشن وتسلیہ'' جو کہ بچوں کے تحفظ سے متعلق ایک اہم اسکیم ہے، اس کے لیے مختص بجٹ بھی پوری طرح خرچ نہیں کیا جا سکا، جو کہ عمل درآمد کے حوالے سے انتظامی خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اوپر دیے گئے تجزیے سے واضح ہوتا ہے کہ حکومتی بجٹ میں سماجی خدمات کے شعبے کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ تعلیم کے لیے مختص بجٹ بھی ضرورت کے مطابق نہیں، جبکہ بچوں کی صحت، غذائیت، اور تحفظ کے لیے انتہائی کم وسائل رکھے گئے ہیں۔ اگر حکومت واقعی بچوں کی فلاح و بہبود چاہتی ہے تو اسے تعلیم، صحت، اور تحفظ کے بجٹ میں متوازن اضافے کے ساتھ شفافیت اور مؤثر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔
تحریر: محمد فداء ا لمصطفیٰ قادریؔ
رابطہ نمبر:9037099731
ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی،ملاپورم،کیرالا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں