حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب

 

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب

ببیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیقِ اکبر کا

ہے یار غار محبوب خدا صدیقِ اکبرکا

لٹایا راہ حق میں گھر کئی بار اس محبت سے

کے لٹ لٹ کر حسن گھر بن گیاصدیقِ اکبر کا

        اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ کی ذات تمام تر انبیاء کرام و رسولانِ عظام علیہم السلام کے بعد سب سے معزز اور معتبر ذات ہے اور یہ شرف آپ کے سوا کسی کو نہ ملا ہے اور نہ ملیگااور اسی وجہ سے تو کہا گیا ہے: ”أفضل البشر بعد الأنبیاء والمرسلین ھو ابو بکر الصدیق“۔ یعنی انبیاء کرام اور رسولانِ عظام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل ذات کوئی ذات ہے تو وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات ہے اور کیوں نہ ہو کہ جو اپنا سب کچھ راہ خدا میں قربان کر دے وہ اللہ کا مقرب اور برگزیدہ بندہ بن جاتا ہے۔ اور مجھ جیسے ناچیز کی کیا حیثیت کہ آپ کے شان میں کچھ خامہ فرسائی کر سکوں۔ ویسے تو آپ میں اعلیٰ قائدانہ صفات پائی جاتی ہے جیسے عقیدے کی سلامتی، علم شریعت سے کامل روشناسی، اللہ پر تو کل، بہترین نمونہ، صدق، قناعت، شجاعت، مروت، زہد، ایثار و قربانی، مردم شناسی، معاونین کا حسن انتخار خاب، انکسار، دوسروں کی قربانی او اور خدمات کو سراہنا اور ان کا اعتراف کرنا علم، بردباری، صبر، عالی ہمتی، پختہ عزمی، قوی ارادہ، عدل و انصاف، مشکلات حل کرنے کا ملکہ، دوسروں کی تعلیم و تربیت اور قیادت کو تیار کرنے کا فن آپ کی بہت اہم اور نمایاں خوبیاں ہیں اور ان سب میں سب سے بلند و بالا مقام پر اگر کوئی صفت آپ میں موجود تھی تووہ صفت راہ حق میں بلا ہچکچاہٹ سب کچھ قربان کر دینا تھا۔

        اگر کوئی محقق صحبت نبوی میں گزارے ہوئے سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کے مکی دوررسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی معیت میں مدنی دور کے معرکوں اور غزوات میں آپ کی شرکت اور مسلم معاشرے میں آپ کے شب و روز کا بنظر عمیق مطالعہ کرے تو اس پر مندرجہ بالا صفات عالیہ کے علاوہ بھی آپ کی بہت سی گرانقدر خوبیاں آشکار ہو سکتی ہیں اور آپ کی صفات عالیہ کے بارے میں بیان کرنے سے قاصر ہو جائیگا۔

         آپ کی بعض خوبیاں تو وہ ہیں جو اس وقت عیاں ہوئیں جب آپ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بنے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت ہی حکومت اسلامیہ کی حفاظت کی اور فتنہ ارتداد کا قلع قمع کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہی سے آپ نے ثابت قدمی اور پامردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امت اسلامیہ کو اس کے طے شدہ اہداف کی طرف گامزن کر دیا۔اب یہا ن سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بعض اہم  صفات کی تفصیل درج ذیل ہے:

        ابو بکر صدیق ؓ کے ایمان کی عظمت: حضرت ابو بکر صدیقؓ کا اللہ رب العزت پر ایمان نہایت محکم اور عظیم تھا۔ آپ کو ایمان کی حقیقت کا گہرا ادراک تھا۔ کلمہ توحید آپ کے رگ و پے میں سرایت کر گیا تھا۔ آپ کے دل و دماغ پر ایمان و یقین ہی کی حکمرانی تھی۔ کلمہ توحید کے آثار و نتائج آپ کے جوارح پر بھی مرتب ہوئے اور انہی آثار کی روشنی میں آپ نے اپنی حیات مستعار بسر کی۔ آپ اعلیٰ اخلاق سے آراستہ اور گھٹیا اخلاق سے پاک تھے۔ آپ شریعت الہی کو مضبوطی سے تھامنے کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور راہنمائی کی اقتدا کی بڑی شدید تڑپ رکھتے تھے۔ آپ کا ایمان باللہ سرگرمی و نشاط، عزم و ہمت، جہد مسلسل، عمل پیہم، مجاہدے، جہاد و تربیت، عزت، ترقی اور عالی مرتبے کا باعث تھا۔ آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے بارے میں ایسا نا قابل تسخیر ایمان و یقین تھا کہ صحابہ کرام میں سے کوئی بھی اس  معاملے میں آپ کا ہم پلہ نہیں تھا۔

        ابو بکر بن عیاشؓ  فرماتے ہیں: حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنے نماز روزے کی کثرت کی وجہ سے دوسرے صحابہ کرام سے فائق نہیں تھے بلکہ وہ اس چیز کی بنا بر سبقت لے گئے جو ان کے دل میں سرایت کر گئی تھی۔(فضائل الصحابۃ للإمام أحمد: 173/1)۔

         اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ایمان اور تمام اہل زمین کے ایمان کا وزن کیا جائے تو حضرت ابوبکرصدیق ؓ  دل کے ایمان کا پلڑا بھاری رہے گا۔ جیسا کہ حضرت ابوبکرہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی  اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے پوچھا: مَنْ رَّأَی مِنْکُمْ رُؤْیَا؟  یعنی تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے؟“۔ایک آدمی نے کہا: ”میں نے دیکھا ہے کہ آسمان سے ایک میزان نازل ہوئی اور اس میں آپ کا اور حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا وزن کیا گیا تو آپ حضرت ابو بکر صدیق ؓسے وزن میں بھاری رہے، پھر حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر ؓ کا وزن کیا گیا تو حضرت ابوبکر ؓکا پلڑا وزنی ہوا، پھر حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کا وزن کیا گیا تو حضرت عمرؓ حضرت عثمانؓ سے بھاری ثابت ہوئے، پھر وہ میزان اوپر اٹھا لی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خواب سے کبیدہ خاطر ہوئے، پھر آپ نے فرمایا:”خلافۃ نبوۃ ثم یؤتی اللہ الملک من یشاء“یعنی یہ نبوت کی خلافت ہے، پھر اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا بادشاہی عطا کرے گا۔(صحیح سنن أبی داود، حدیث: 4635)۔

        حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر ادا کی، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: بَیْنَمَا رَجُلٌ یَسُوقُ بَقَرَۃً قَدْ حَمْلَ عَلَیْہَا، فَالْتَفَتَتْ إِلَیْہِ فَکَلَّمَتْہُ فَقَالَتْ: إِنِّی لَمْ أُخْلَقْ لِہَذَا لَکِنِّی خُلِقْتُ لِلْحَرْثِ:یعنی ایک آدمی نے اپنے بیل پر بوجھ لادا ہوا تھا اور اسے ہانک رہا تھا۔ بیل نے اس کی طرف دیکھا اور اس سے بات کرتے ہوئے کہا: ”بلاشبہ مجھے بار برداری کے لیے تو نہیں پیدا کیا گیا بلکہ مجھے تو صرف کھیتی باڑی کا کام کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

        لوگوں نے یہ سن کر اظہار تعجب کرتے ہوئے کہا: سبحان اللہ! (عجیب بات ہے) کیابیل بھی کلام کرتا ہے؟“۔ اس پر رسول اللہ صل السلام نے فرمایا: ”فَإِنِّی أُؤْمِنُ بِہِ وَ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ۔ یعنی یقینا میں اس پر ایمان لایا ہوں اور ابوبکر و عمر بھی اس پر ایمان رکھتے ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ”بَیْنَمَا رَاعٍ فِی غَنَمِہِ عَدَا عَلَیْہِ الذِّءْبُ فَأَخَذَ مِنْہَا شَاۃَ فَطَلَبَہُ الرَّاعِی، فَالْتَفَتَ إِلَیْہِ الذِّنْبُ فَقَالَ: مَنْ لَّہَا یَوْمَ السَّبْعِ یَوْمَ لَیْسَ لَہَا رَاعٍ غَیْرِی؟۔ یعنی ایک چرواہا اپنی بکریوں میں موجود تھا اسی اثنا میں ایک بھیڑیا اس کے ریوڑ پر حملہ آور ہوا اور اس نے اس میں سے ایک بکری دبوچ لی۔ چرواہے نے بکری کے حصول کے لیے اس کا تعاقب کیا حتی کہ اپنی بکری اس سے چھڑا لی۔ بھیڑیے نے اس کی طرف متوجہ ہو کر کہا: درندوں کے دن ان بکریوں کا کون محافظ ہوگا اور وہ دن ایسا ہو گا کہ اس دن میرے علاوہ کوئی بکریوں کو چرانے والا نہ ہو گا؟“۔لوگوں نے پھر تعجب سے کہا: ”سبحان اللہ! بھیڑ یا با تیں کرتا ہے؟“۔

        رسول اللہ علیم نے فرمایا:فَإِنِّی أُؤْمِنُ بِذَلِکَ وَ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یقینا میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور ابوبکر و عمر بھی اس پر ایمان رکھتے ہیں“۔حالانکہ وہ (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) دونوں اس مجلس میں حاضر نہیں تھے۔ سید نا ابو بکر صدیق ؓکے ایمان کی محکمی، شریعت الہی کے التزام اور اسلام کے لیے آپ کے صدق و اخلاص کی دلیل یہ ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔(صحیح البخاری، حدیث: 3663، وصحیح مسلم، حدیث: 2388)۔

        اور یہ محبت بڑھتے بڑھتے یہ صورت اختیار کر گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں محبت آپ کے تمام صحابہ کرام بھی اللہ پر مقدم ہو گئی۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ذات السلاسل کے لشکر کا امیر بنا کر بھیجا۔ عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: ”لوگوں میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟“۔ رسول اللہ سی ایم نے فرمایا: عائشۃُ یعنی عائشہ،۔میں نے کہا: ”مردوں میں سے کون ہے؟“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:أبوھا یعنی عائشہ کا باپ“۔میں نے کہا: ”ان کے بعد پھر کون ہے؟“۔آپ نے فرمایا: ”ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ پھر عمر بن خطاب ہیں۔بعد ازاں آپ نے کئی آدمیوں کے نام لیے۔ 

        اسی عظیم ایمان، شریعت الہی کے التزام اور رب العالمین کے دین کی خاطر مساعی کی بدولت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم نے آپ کو جنت کا مستحق قرار دیا اور ساتھ ہی یہ بشارت بھی دی کہ آپ جنت کے تمام دروازوں سے بلائے جانے کے مستحق ہیں۔

                حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے گھر سے وضو کر کے نکلا اور دل میں یہ عہد کیا کہ آج میں دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہوں گا۔ میں مسجد پہنچا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل کر اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں چل دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم براریس نامی باغ میں داخل ہو گئے۔ میں اس باغ کے دروازے کے قریب بیٹھ گیا۔ یہ دروازہ کھجور کی شاخوں کا بنا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم جب قضائے حاجت سے فارغ ہوئے اور وضو کر چکے تو میں آپ کی خدمت میں جا کھڑا ہوا۔ دیکھا کہ براریس کی منڈیر کے بیچ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ اپنی دونوں پنڈلیوں سے کپڑا ہٹاکر انہیں کنویں میں لٹکا رکھا۔ ہے۔ میں نے آپ کو سلام کیا،! پھر واپس آکر باغ کے دروازے پر جا بیٹھا اور دل میں تہیہ کر لیا کہ میں آج رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم کا دربان رہوں گا۔

         اسی اثنا میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آگئے۔ انھوں نے دروازہ کھولنا چاہا۔میں نے پوچھا: ”کون ہے؟“۔ انھوں نے جواب دیا: ”ابو بکر“۔میں نے کہا: ”ذرا ٹھہریے پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوا اور انھیں بتایا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے ہیں اور حاضر خدمت ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔آپ نے فرمایا:”ائذن لہ و بشرہ بالجنۃ“۔ انھیں اندر آنے کی اجازت دو اور ساتھ ہی جنت کی خوشخبری بھی سنا دو؟“ میں نے واپس آکر حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے کہا: ”اندر آ جائیے۔ رسول اللہ سلیم آپ کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں“۔ حضرت ابوبکر اندر داخل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب آپ کے ساتھ منڈیر پر بیٹھ گئے اور انھوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اپنی پنڈلیوں سے کپڑاکر اپنی ٹانگیں کنویں میں لڑکا دیں (صحیح البخاری، حدیث: ۴۷۶۳)۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا:”مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَیْنِ فِی شَیْءٍ مِّنَ الْأَشْیَاءِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ دُعِیَ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ: یَا عَبْدَ اللَّہِ ہُذَا خَیْرٌ، فَمَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الصَّلَاۃِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الصَّلَاۃِ وَ مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الْجِہَادِ دُعِیَ مِنْ بَابِ الجِہادِ وَمَن کَانَ أہلِ الصَّدَقَۃِ دُعِیَ مِن بَابِ الصَّدَقَۃِ وَ مَن کَانَ مَن أَہلِ الصِّیامِ دُعِیَ مِن بَابِ الصِّیَامِ و بَابِ الرَّیَّانِ“۔یعنی شخص کسی چیز کا ایک جوڑا اللہ رب العزت کے راستے میں خرچ کریگا وہ جن کے دروازوں سے یوں بلایا جائیگأ: ”اے اللہ کے بندے! اس دروازے سے جنت میں داخل ہوجا کیوں کہ یہ دروازہ بہتر ہے“۔ جو شخص نمازی ہوگا وہ باب الصلاۃ (نمازوں کے دروازے) سے بلایا جائیکا، جو شخص صدقہ وخیرات کرنے والوں میں سے ہوگا اسے با الصدقہ سے بلایا جائیگا اور جوشخص روزے داروں میں سے ہوگا وہ باب الصوم یا باب الریان سے پکارا جائیگا“۔ 

        پھر ابو بکر صدیق ؓ نے فرمایا:”جوشخصان دروازوں میں سے کسی بھے دروازے سے بلالیا گیا اسے کوئی حاجت اور تکلیف نہیں ہوگی۔ لیکن اے اللہ کے رسول! کیا کوئی ایسا آدمی بہی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائیگا؟“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”ہاں! اور اے ابوبکر! مجھے امید ہے کہ تم بھی انہی میں ہوں گے“۔ (صحیح البخاری، حدیث: ۶۶۶۳)۔

        اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں صدیق اکبرؓ کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سیرت رسول پر چلنے کے ساتھ دوسروں کو اس مقدس سیرت پر چلانے کی توفیق عطاء فرمائے اور دارین کی سعادتوں سے مالا مال کر ے آمین بجاہ سید المرسلین۔ 

 

تحرير:محمد فداء المصطفیٰ گیاوی

رابطہ نمبر: 9037099731

ڈومریا ،مرشد نگر بھنگیا، گیا، بہار

 


تبصرے