کیا بیرین سنگھ کا استعفیٰ واقعی امن کی بحالی کاباعث بنے گا؟



کیا بیرین سنگھ کا استعفیٰ واقعی امن کی بحالی کاباعث بنے گا؟

بیرین سنگھ کا استعفیٰ منی پور میں بڑھتے ہوئے بحران اور سیاسی عدم استحکام کے پس منظر میں سامنے آیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ استعفیٰ واقعی ریاست میں امن کی بحالی کا باعث بنے گا یا یہ محض ایک وقتی سیاسی چال ثابت ہوگا۔ اس سوال کا جواب ریاست کی موجودہ صورتحال اور اس کے مستقبل پر منحصر ہے۔ یہ فیصلہ بظاہر ایک سیاسی چال کے طور پر دکھائی دیتا ہے، تاہم اس کے پس پردہ جو عوامل کارفرما ہیں وہ ریاست کی طویل المدتی سیاسی عدم استحکام اور مرکزی حکومت کی بے حسی کو نمایاں کرتے ہیں۔ اگرچہ بی جے پی نے بیرین سنگھ کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے، مگر یہ سوال ابھی بھی برقرار ہے کہ آیا یہ فیصلہ ریاست میں امن قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا یا نہیں۔بیرین سنگھ کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران منی پور میں ایک طویل بحران نے جنم لیا ہے۔ کوکی اور میتیئی برادریوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیاہے، اور ریاستی حکومت اور مرکز کی بے توجہی نے اس بحران کو اور بھی گھمبیر کر دیاہے۔ بی جے پی قیادت کی طرف سے اس بحران پر نظراندازی اور عوام کو ان کے حالات پر چھوڑ دینا سیاسی لاپرواہی اور ناکامی کی واضح مثال ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی کا منی پور کے حوالے سے مسلسل خاموش رہنا اور وزیرِ داخلہ امت شاہ کا صرف نمائشی دورہ کرنا اس بات کا غماز ہے کہ مرکز نے اس بحران کو محض سیاسی کھیل کے طور پر دیکھا اور انسانی المیہ کے طور پر نہیں لیا۔

اس عرصے میں منی پور میں بڑھتے ہوئے تشدد اور بے چینی کی وجہ سے عوام کی حالت بدتر ہوئی، لیکن حکومت کی طرف سے اس پر کوئی ٹھوس ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس تمام صورتحال میں، بیرین سنگھ کا استعفیٰ ایک سیاسی اسٹرٹیجی کے طور پر سامنے آیا ہے تاکہ بی جے پی کے اندرونی تنازعات اور اپوزیشن کی ممکنہ تحریکِ عدم اعتماد کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یہ استعفیٰ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بی جے پی اپنے اندرونی اختلافات سے نمٹنے کے لیے ریاستی سطح پر کسی بھی اہم سیاسی تبدیلی کو بروئے کار لانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی۔ اس تناظر میں یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ بیرین سنگھ کا استعفیٰ اخلاقی دباؤ کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد بی جے پی کے اندرونی بحران کو قابو پانا اور ریاست میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام کو کسی حد تک کم کرنا ہے۔ تاہم، یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ آیا یہ فیصلہ منی پور میں حقیقتاً امن و سکون کا باعث بنے گا یا یہ محض سیاسی سراب ثابت ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ منی پور میں مسلسل جاری کشیدگی، مرکز کی بے توجہی اور ریاستی حکومت کی ناکامی نے اس استعفے کو جنم دیا ہے، جو دراصل ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے، لیکن اس کا حقیقی مقصد ریاست میں امن قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرنا ہے یا نہیں، یہ وقت ہی بتائے گا۔

اگر واقعی بیرین سنگھ کو منی پور میں جاری بدامنی کی ذمہ داری قبول کرنی تھی، تو انہیں یہ فیصلہ بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ مارچ 2023 میں جب کوکی برادری پر مظالم کے دل دہلا دینے والے ویڈیوز سامنے آئے، جب دو معصوم لڑکیوں کو برہنہ پریڈ کرایا گیا، جب سینکڑوں گھروں کو آگ لگا دی گئی اور ہزاروں افراد بے گھر ہوئے، تب بیرین سنگھ نے ایک لمحے کے لیے بھی حالات کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا۔ اس وقت حکومت کی خاموشی نے نہ صرف ریاست میں عوامی اشتعال کو بڑھایا، بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی ساکھ کو بھی سنگین نقصان پہنچایا۔ یہ واقعہ صرف منی پور کے عوام کے لیے نہیں، بلکہ پورے ملک کے لیے ایک سنگین بدنامی کا سبب بن گیا۔ سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے پر سخت رویہ اپنایا اور حکومت کو واضح طور پر متنبہ کیا کہ اگر حالات پر قابو نہیں پایا گیا تو عدالت کو مداخلت کرنا پڑے گا۔

اس تمام صورتحال میں، حقیقت یہ ہے کہ بیرین سنگھ کا استعفیٰ بی جے پی کے داخلی بحران کا نتیجہ ہے۔ ریاستی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے پہلے بی جے پی کے کئی ناراض اراکین اسمبلی کی مخالفت نے پارٹی قیادت کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ بیرین سنگھ کو ہٹا کر کسی ممکنہ سیاسی شکست سے بچا جا سکتا ہے۔ پارٹی کے اندرونی اختلافات اور اپوزیشن کی جانب سے ممکنہ تحریکِ عدم اعتماد کی وجہ سے بی جے پی نے یہ قدم اٹھایا تاکہ کسی بھی ممکنہ سیاسی نقصان کو روکا جا سکے۔ تاہم، اس تاخیر نے یہ ثابت کر دیا کہ بی جے پی کے لیے انسانی جانوں سے زیادہ سیاسی مفاد عزیز تھا۔ یہ واضح ہے کہ بی جے پی کی قیادت نے انسانی حقوق کی پامالی اور بدامنی کو سیاسی مفادات کے تناظر میں دیکھا۔ اگر حکومت کے فیصلے فوری اور سخت ہوتے، تو شاید حالات میں بہتری آ سکتی تھی اور ریاستی تشویشات کا سدباب ممکن ہوتا۔ لیکن اس وقت جب بیرین سنگھ کی ضرورت تھی، انہوں نے محض سیاسی بچاؤ کی کوشش کی، اور اس کے نتیجے میں عوامی اعتماد میں مزید کمی واقع ہوئی۔ ان کی خاموشی نے نہ صرف ریاستی بحران کو مزید بڑھاوا دیا بلکہ یہ بھی ظاہر کر دیا کہ حکومت میں انسانی مسائل سے زیادہ سیاسی حکمت عملی کو ترجیح دی گئی۔

لہٰذا، اگر بیرین سنگھ کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا، تو انہیں اس بحران کے آغاز میں ہی اپنے منصب سے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا، تاکہ ریاست اور عوام کے ساتھ انصاف کیا جا سکتا۔ مگر افسوس کہ سیاسی مفادات اور داخلی اختلافات نے اس تمام صورتحال کو پیچیدہ کر دیا اور ریاست کی تقدیر کے ساتھ کھلواڑ کیا۔

بیرین سنگھ کے استعفیٰ کے بعد اب سب کی نظریں اس پر جمی ہیں کہ بی جے پی کس کو ان کا جانشین مقرر کرتی ہے یا پھر ریاست میں صدر راج نافذ کیا جاتا ہے۔ منی پور میں جس شدت سے تباہی ہوئی ہے، اسے دیکھتے ہوئے کسی ایک شخصیت کو وزیراعلیٰ بنا کر حالات کو قابو میں لانے کی امید رکھنا محض ایک خام خیالی ہوگی۔ ریاستی بحران اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ قیادت کی صرف تبدیلی سے کوئی خاطر خواہ حل نہیں نکلے گا، بلکہ پورے حکومتی نظام میں بنیادوں تک اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس وقت ریاستی حکومت کے مختلف محکمے، انتظامیہ اور پولیس سبھی اس بحران کے دوران غیر فعال نظر آئے، جس نے بحران کو مزید پیچیدہ بنایا۔

اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ بی جے پی نے منی پور کے بحران کو ہندو ووٹوں کی پولرائزیشن کے لیے استعمال کیا۔ جب ریاست کے مختلف طبقات امن کی اپیل کر رہے تھے، تب پارٹی کے کچھ حلقے اس تنازعے کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہوا دے رہے تھے۔ اس نے ایک طرف تو عوام کے درمیان مزید فرقہ وارانہ دراڑیں ڈالیں، دوسری طرف امن و امان کے قیام میں مزید مشکلات پیدا کر دیں۔ اگر مرکز کو واقعی منی پور کی بہتری کی فکر ہوتی، تو وہ اس مسئلے کو محض انتظامی بحران کے طور پر نہیں، بلکہ ایک انسانی بحران کے طور پر لیتا اور اسے انسانی حقوق کے تناظر میں حل کرنے کی کوشش کرتا۔ بدقسمتی سے، بی جے پی کی قیادت نے اس مسئلے کو جتنی دیر تک طول دیا، ریاست کے عوام کے زخم اتنے ہی گہرے ہوتے گئے۔ اس دوران حکومت کی خاموشی اور غیر سنجیدہ رویہ عوامی اشتعال کو مزید بڑھاوا دینے کا باعث بنا، جس کا نتیجہ آج منی پور میں نظر آ رہا ہے۔ یہ نہ صرف ریاستی سطح پر امن و امان کی صورتحال کو متاثر کررہا ہے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہندوستان کی ساکھ کو نقصان پہنچارہا ہے۔

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاستی حکومت کے نظام میں مکمل اصلاحات کی جائیں، نہ کہ محض قیادت میں تبدیلی کی کوشش کی جائے۔ انتظامی اور پولیس نظام کی کارکردگی کو بہتر بنانا ضروری ہے تاکہ بحران کے دوران عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ ریاست میں امن و سکون کے قیام کے لیے سب سے پہلے ریاستی سطح پر انسانی بحران کے طور پر اس مسئلے کو دیکھا جانا ضروری ہے، تاکہ اس کے اثرات کو کم کیا جا سکے اور عوام کا اعتماد دوبارہ بحال کیا جا سکے۔ لہٰذا، اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا بی جے پی محض سیاسی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی نیا قدم اٹھائے گی، یا پھر یہ وقت ہے کہ وہ اس بحران کو حل کرنے کے لیے حقیقی اقدامات کرے، جو نہ صرف سیاسی سطح پر، بلکہ عوامی سطح پر بھی اثر انداز ہوں۔

منی پور میں فوری طور پر اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کرانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔ اس وقت ریاست میں ایک مضبوط اور غیر جانبدار حکومت کی ضرورت ہے جو بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست سے آزاد ہو اور عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ریاست میں امن و سکون کی بحالی کے لیے ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر صرف عوامی فلاح و بہبود کو ترجیح دے۔ مزید برآں، مرکزی حکومت کو منی پور کے مسئلے کو محض ایک ریاستی بحران نہ سمجھتے ہوئے اس پر ایک جامع پالیسی ترتیب دینی ہوگی جو ریاست میں دیرپا امن کو یقینی بنا سکے اور تمام برادریوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔

بیرین سنگھ کا استعفیٰ اگرچہ ایک علامتی جیت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن جب تک منی پور میں پھیلی بے چینی اور تقسیم کے زخم مندمل نہیں ہوتے، تب تک یہ فیصلہ محض ایک وقتی اقدام ہی ثابت ہوگا۔ جب تک ریاست میں موجود عدم استحکام کی جڑوں کو گہرا تجزیہ نہ کیا جائے اور اس کے اثرات کو درست طریقے سے دور نہ کیا جائے، تب تک یہ بحران اور اس کے اثرات جاری رہیں گے۔ اس کے لیے ایک مستقل حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس میں ریاستی انتظامیہ کیاصلاحات، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے سنجیدہ اقدامات اور تمام طبقوں کے درمیان اعتماد کی بحالی شامل ہو۔

اگر مرکز اور ریاستی حکومت واقعی منی پور کے عوام کے ساتھ انصاف کرنا چاہتی ہیں تو انہیں فوری طور پر عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے جو ریاست کو ایک بار پھر امن و استحکام کی راہ پر گامزن کر سکیں۔ یہ اقدامات صرف سیاسی قیادت کی تبدیلی تک محدود نہیں ہونے چاہئیں، بلکہ ریاست کے انتظامی نظام میں بھی گہری اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ عوام کی خدمت بہتر انداز میں کی جا سکے اور حکومتی مشینری کو فعال بنایا جا سکے۔ عوامی سطح پر متوازن اور غیر جانبدار قیادت کا انتخاب ہی ان تمام بحرانوں کا حل ہو سکتا ہے۔

اگر فوری طور پر ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے، تو یہ بحران نہ صرف منی پور بلکہ پورے ہندوستان کی سا  لمیت کے لیے ایک مستقل خطرہ بن جائے گا۔ منی پور کا مسئلہ اب صرف ریاستی سطح پر نہیں، بلکہ قومی سطح پر ایک چیلنج بن چکا ہے جس کے اثرات دور رس ہوں گے۔ اس لیے حکومتوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر عوام کی فلاح اور ریاست میں دیرپا امن کے قیام کے لیے سنجیدہ اور موثر قدم اٹھائیں۔


تحریر: محمد فداء ا لمصطفیٰ قادریؔ

رابطہ نمبر:9037099731

ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی،ملاپورم،کیرالا 

 





تبصرے