آج کل کے پردے کو بھی پردے کی ضرورت ہے!
آج کے دور میں پردے کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اصل پردے کے مفہوم سے بہت دور جا چکا ہے۔ فٹنگ عبایا، چمکدار اور خوشنما رنگوں کے فینسی حجاب، اور اسٹائلش انداز میں لپٹا ہوا دوپٹہ یہ سب کیا واقعی پردہ کہلانے کے لائق ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ دور کی مسلمان خواتین، پردے کے نام پر جو کچھ کر رہی ہیں، وہ درحقیقت شیطان کے جال میں پھنستی جا رہی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ وہ پردہ کر رہی ہیں، جبکہ اصل میں وہ اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہو چکی ہیں اور اپنی ہی عزت و وقار کو مجروح کر رہی ہیں۔ آج کل جو عبایا اور حجاب بازاروں میں دستیاب ہیں، وہ حقیقت میں حیاداری کے بجائے مزید بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں۔ بعض عبایا ایسے باریک کپڑے سے تیار کیے جا رہے ہیں کہ اندرونی لباس تک نمایاں نظر آتا ہے۔ کہیں اتنا چمکدار اور فیشن ایبل لباس ہے کہ دیکھنے والے کی توجہ پردے کی روح سے ہٹ کر لباس کی خوبصورتی پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ بعض عبایا ایسے چست اور لچکدار کپڑے سے بنائے جا رہے ہیں کہ وہ پورے جسم سے چپک جاتے ہیں اور جسم کے خد و خال کو نمایاں کرتے ہیں۔ کیا یہی پردے کی اصل روح ہے؟ کیا یہی وہ پردہ ہے جس کا قرآن اور حدیث میں ذکر کیا گیا ہے؟
بدقسمتی سے، ہماری تعلیم یافتہ خواتین بھی اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ وہ پردے میں ہیں، جبکہ درحقیقت ان کے پردے کو بھی پردے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم تاریخِ اسلام کا مطالعہ کریں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ پردہ محض جسم کو ڈھانپنے کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے جو عورت کی عفت، پاکیزگی اور عزت کی حفاظت کرتا ہے۔ آج کی لبرل سوچ میں یہ بات عام ہو چکی ہے کہ ”پردہ تو صرف نظر کا ہوتا ہے“۔ یعنی، اگر نیت صاف ہو تو لباس کی کوئی قید نہیں۔ یہ سوچ دراصل اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ اسلام میں پردہ صرف نظر جھکانے کا نام نہیں، بلکہ مکمل لباس میں حیا اور شرم کا عنصر شامل ہونا بھی ضروری ہے۔ قرآن مجید میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ عورتیں اپنی زینت کو نہ دکھائیں اور اپنی چادر سے خود کو ڈھانپ کر رکھیں (سورۃ النور، آیت 31)۔ یہ ہم سب پر لازم ہے کہ ہم پردے کو اس کی حقیقی روح کے مطابق اپنائیں، نہ کہ اسے ایک فیشن کے طور پر استعمال کریں۔ پردہ وہی قابلِ قبول ہے جو نہ صرف جسم کو مکمل طور پر ڈھانپے بلکہ حیا اور وقار کا بھی مظہر ہو۔ ہمیں مغربی سوچ سے متاثر ہو کر اپنی اسلامی روایات کو پامال نہیں کرنا چاہیے، بلکہ فخر کے ساتھ اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہونا چاہیے، کیونکہ اصل کامیابی اسی میں ہے۔
ذرا ان سے کوئی پوچھے تو سہی کہ شہزادی کونین حضرت فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظروں کی شرم و حیا کا کیا عالم تھا؟ کیا امہات المومنین کی نظروں کی شرم و حیا کا کوئی مقابلہ کر سکتا ہے؟ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کو اللہ کے احکام کے مطابق گزارا، اور ان کا پردہ کرنا ایک مثال ہے جس کی پیروی ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر امہات المومنین کو پردہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا یہ محض ایک رسم تھی؟ نہیں، بلکہ یہ اللہ کے حکم کی اطاعت تھی۔ اللہ کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کرنا، یہی ان کا طریقہ تھا۔ اگر اللہ کا حکم تھا تو وہ بغیر کسی اعتراض کے اسے قبول کر لیتیں۔ ان خواتین کا پردہ کرنا صرف ان کی عفت اور حیا کا مظہر نہیں تھا بلکہ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ وہ اپنے خالق کے احکام کی ہر صورت میں تعمیل کرتی ہیں۔
آج کل کی پڑھی لکھی جاہل عورتوں کی طرح اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے، انہوں نے اللہ کے حکم کو سر آنکھوں پر لیا۔ وہ یہ جانتی تھیں کہ اللہ کی طرف سے جو حکم دیا جاتا ہے، وہ حکمت سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگیوں میں بے پناہ سکون اور برکت تھی۔ آج ہمیں ان عظیم خواتین کی زندگیوں کو اپنے لیے نمونہ بنانا چاہیے، اور اللہ کے ہر حکم پر بغیر کسی سوال کے عمل کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی عقل کو اللہ کے حکم کے تابع کرنا سیکھنا ہوگا، کیونکہ یہی ہماری کامیابی اور سکون کا راستہ ہے۔
کچھ تو شرم کرو، بنت حوا! کہاں جا رہی ہو؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اپنی عزت، اپنی حیا اور اپنی شناخت کو نظرانداز کر کے بے پردگی کی راہ اختیار کر رہی ہو؟ کیا تمہیں نہیں پتا کہ تمہاری شرم و حیا تمہاری پہچان ہے؟ جب قیامت کے دن ہمارا اعمال نامہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا جائے گا تو ہم کیا جواب دیں گے؟
آج ہم اپنی زندگیوں میں جتنی بے پردگی، بے حیائی اور فحاشی کا شکار ہیں، قیامت کے دن جب یہ سب کچھ ہمارے اعمال نامے میں لکھا ہوا ہوگا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرم سے کس طرح سر جھکائیں گے؟ وہ تو وہ ذات ہیں جنہوں نے اپنی امت کی بخشش اور مغفرت کے لیے راتوں کو اللہ کے سامنے دعا کی، اور رو کر اللہ سے اپنی امت کی نجات کی درخواست کی۔ وہ جو ہماری وجہ سے بے پناہ پریشانی میں مبتلا ہوئے، ہمارے اعمال کی وجہ سے ان کی تکلیف کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے۔ وہ اپنی امت کی بخشش کے لیے اپنی جان تک کو خطرے میں ڈالتے ہیں، اور ہم ان کی شفاعت کو بے وقعت کرتے ہوئے اپنی بے حیائی کی راہ اختیار کر رہے ہیں۔
آج کل کی اکثر خواتین اپنی آزادی اور جدیدیت کے نام پر پردہ اور حیا کے تمام اصولوں کو پس پشت ڈال چکی ہیں۔ لباس کا یہ حال ہے کہ پردہ کی جگہ اب فیشن، اسٹائل اور دیگر ظاہری باتوں نے لے لی ہے۔ ہم یہ بھول چکے ہیں کہ ہمارا پردہ ہماری پہچان ہے، ہماری عزت کا تحفظ ہے اور یہ اللہ کے حکم کے مطابق ہے۔ جب ہم قیامت کے دن اپنے اعمال کے بارے میں حساب دیں گے، تو کیا ہماری بے پردگی، فحاشی اور بے حیائی کی وجہ سے اللہ کی رضا کی جگہ عذاب ہمارا مقدر بنے گا؟ صرف عورتوں کا ہی نہیں، ہم سب کا یہ فرض ہے کہ ہم اللہ کے احکام پر عمل کریں اور اس کی رضا کے لیے زندگی گزاریں۔ اللہ پاک ہمیں اپنے شیطان کے شر اور اپنے عذاب سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
قیامت کے دن جب ہماری زندگی کا حساب کتاب ہو گا اور ہمیں ہمارے اعمال کے بارے میں بتایا جائے گا، تو کیا ہم اپنی بے حیائی پر شرمندہ ہوں گے؟ کیا ہم یہ برداشت کر سکیں گے کہ جس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی دعاؤں سے نوازا، وہ ہماری وجہ سے تکلیف میں مبتلا ہوں؟ وہ تو اپنی امت کے لیے دعا کرتے تھے، اور ہم ان کی دعاؤں کا جواب اپنی بے حیائی اور بے پردگی سے دے رہے ہیں۔ آئیں، ہم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں اور اللہ کے احکام کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔ اللہ ہمیں اپنی ہدایت دے اور ہم سب کو اپنی مغفرت اور بخشش کا حق دے۔ آمین۔
تحریر: محمد فداء ا لمصطفیٰ قادریؔ
رابطہ نمبر:9037099731
ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی،ملاپورم،کیرالا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں