دہلی اسمبلی الیکشن اور عام آدمی پارٹی

دہلی اسمبلی الیکشن اور عام آدمی پارٹی

    دہلی اسمبلی انتخاب قریب آرہا ہے اور فروری کا مہینہ سیاسی سرگرمیوں سے بھرپور ہونے والا ہے۔ اروند کیجریوال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی ان انتخابات میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے عوام کو مفت سہولیات کی فراہمی پر انحصار کر رہی ہے۔ دہلی حکومت کی جانب سے دی جانے والی ان سہولیات کی فہرست کافی طویل اور متاثر کن ہے، لیکن اس کے ساتھ سرکاری خزانے پر بھاری بوجھ بھی پڑ رہا ہے۔ سب سے پہلے بات کریں بجلی کی، تو دہلی کے عوام کو 200 یونٹ تک بجلی بالکل مفت دی جا رہی ہے۔ اگر بجلی کی کھپت 200 سے 400 یونٹ تک ہو، تو بل پر 50 فیصد رعایت دی جاتی ہے۔ اس سہولت کا خزانے پر 3600 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔پانی کی بات کریں تو ہر گھر کو 20 ہزار لیٹر تک پانی مفت دیا جا رہا ہے، جس کا کل خرچ حکومت کے خزانے پر 500 کروڑ روپے سالانہ ہے۔اس کے علاوہ خواتین کو ڈی ٹی سی بسوں میں مفت سفر کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ یہ اقدام جہاں خواتین کے لیے آسانی کا باعث ہے، وہیں اس پر سالانہ 440 کروڑ روپے کا خرچ ہو رہا ہے۔

    دہلی حکومت کا ایک اور منفرد اقدام بزرگ شہریوں کو مفت تیرتھ یاترا کرانا ہے۔ یہ اسکیم بزرگوں کے دل جیتنے کا ایک کامیاب حربہ ثابت ہو رہا ہے۔ یہ تمام سہولیات بلاشبہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ایک بہترین حکمت عملی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ طویل مدتی طور پر معیشت کے لیے پائیدار ہیں؟ کیا دہلی کے ووٹر ان سہولیات کے عوض عام آدمی پارٹی کو ایک بار پھر اقتدار میں لائیں گے؟ یہ تو انتخابات کے نتائج ہی بتائیں گے، لیکن فی الحال دہلی کی سیاست میں ''مفت خدمات'' ایک اہم موضوع بنی ہوئی ہیں۔عام آدمی پارٹی کی فلاحی اسکیمیں بلاشبہ ایک بڑے طبقے میں مقبول ہیں، لیکن ان اسکیموں پر پارٹی کا بڑھتا ہوا انحصار ایک بڑی سیاسی جدوجہد کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ دس سالہ اقتدار کے بعد، پارٹی ایک ''اقتدار مخالف لہر'' کا سامنا کر رہی ہے، جس سے بچنے کے لیے وہ اپنے اقدامات کو زیادہ پرکشش اور عوام دوست دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

    پہلے پہل مفت بجلی، پانی، اسکولوں کی بہتری، اور محلہ کلینک جیسے وعدوں نے دہلی کے عوام کو امید دی تھی۔ اسکولوں میں بنیادی ڈھانچے کی بہتری اور صحت کے شعبے میں محلہ کلینک کا قیام واقعی ایک انقلابی قدم لگا، لیکن اب ان منصوبوں کی حقیقی حالت عوام کو مایوس کرنے لگی ہے۔ اسکولوں میں پہلے کی طرح ترقی نظر نہیں آ رہی، اور محلہ کلینک عملے کی کمی کے باعث پوری طرح فعال نہیں۔ کئی عہدے خالی پڑے ہیں، جن پر بھرتی نہ ہونے کی خبریں عوام کے اعتماد کو مزید کمزور کر رہی ہیں۔ دہلی میں دلت اور اقلیتی ووٹ بینک کا کانگریس کی جانب جھکاؤ عام آدمی پارٹی کے لیے ایک اور بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ پارٹی کی حالیہ پالیسیاں اس خوف کو ظاہر کرتی ہیں۔ دوسری جانب، بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندو ووٹ بینک میں نقب لگانے کی کوشش میں عام آدمی پارٹی مسلسل ناکام دکھائی دے رہی ہے۔

    اس کے علاوہ پارٹی اپنے کئی پرانے فیصلوں کو بدل رہی ہے، جس سے اس کی پالیسیوں میں غیر یقینی صورتحال کا احساس ہوتا ہے۔ بی جے پی نے ہمیشہ عام آدمی پارٹی پر یہ الزام لگایا کہ وہ بنگلہ دیشی دراندازوں اور روہنگیا مہاجرین کے ووٹوں پر انحصار کرتی ہے۔ حال ہی میں دہلی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ دہلی کے اسکولوں میں مہاجر بچوں کو داخلہ نہیں دیا جائے گا۔ یہ فیصلہ بی جے پی کے الزامات کا جواب لگتا ہے، لیکن اس نے پارٹی کی پوزیشن کو مزید متنازع بنا دیا ہے۔ بی جے پی نے کیجریوال کی پارٹی کو ‘‘انتخابی ہندو’’ کا نام دیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ وہ اپنے پرانے اصولوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ دہلی کی سیاست میں یہ تمام عوامل عام آدمی پارٹی کے لیے ایک بڑے امتحان کی شکل اختیار کر چکے ہیں، اور آنے والے انتخابات میں ان کے اثرات دیکھنا باقی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے تنقیدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر عوامی وعدوں کی جھڑی لگا دی ہے۔ 12 دسمبر کو اروند کیجریوال نے ایک نئے وعدے کا اعلان کیا کہ انتخابات کے بعد دہلی کی خواتین کو ''وزیر اعلیٰ خواتین سمان یوجنا'' کے تحت ہر مہینے 2100 روپے دیے جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقع پر دہلی کی وزیر اعلیٰ آتشی نے مزید وضاحت کی کہ ان کی کابینہ نے پہلے خواتین کو 1000 روپے ماہانہ دینے کا فیصلہ کیا تھا، جو انتخابات کے بعد بڑھا کر 2100 روپے کر دیا جائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1000 روپے دینے کا وعدہ ابھی تک عمل کے مراحل میں نہیں پہنچا۔

   عام آدمی پارٹی اعلان تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ اس اسکیم کے لیے خواتین سے فارم بھرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ ان فارموں پر اروند کیجریوال کی تصویر اور پارٹی کا انتخابی نشان (جھاڑو) نمایاں طور پر موجود تھا۔ رپورٹوں کے مطابق، اب تک 12 لاکھ سے زائد فارم بھروائے جا چکے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پارٹی نے خواتین کے ساتھ ایسے وعدے کیے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے پچھلے انتخابات میں بھی خواتین کو ماہانہ مالی امداد دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن حکومت کے تین سال مکمل ہونے کے باوجود وہ وعدہ حقیقت کا روپ نہیں لے سکا۔ کانگریس کے رہنما اور سابق رکن پارلیمنٹ سندیپ دکشت نے اس معاملے پر شدید تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عام آدمی پارٹی انتخابات جیتنے کے لیے جو بھی وعدے کرنا چاہے، کر سکتی ہے، لیکن اس طرح فارم بھروا کر لوگوں کا ذاتی اور حساس ڈیٹا جمع کرنا کسی بھی طرح سے جائز نہیں۔

   یہ صورتحال نہ صرف سیاسی اخلاقیات کے لیے سوالیہ نشان ہے بلکہ دہلی کے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ کیا یہ وعدے واقعی عملی ہوں گے یا محض انتخابات کے لیے ایک حربہ ہیں؟ عوامی فلاح کے دعوے اور ان پر عمل درآمد کے درمیان بڑھتا ہوا خلا عام آدمی پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ دہلی حکومت کی جانب سے ایک عوامی اشتہار شائع کیا گیا جس میں خبردار کیا گیا کہ ایسی کسی بھی یوجنا کو لانچ کرنا دھوکہ دہی کے مترادف ہے۔ انتخابات سے پہلے مفت سہولیات کے وعدے کوئی نئی بات نہیں ہیں، لیکن حکومت میں موجود پارٹیوں کا ان اعلانات کے ذریعے سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش کو کسی بھی طور پر اخلاقی نہیں کہا جا سکتا۔ مفت سہولیات کے یہ اعلانات برسراقتدار پارٹی کو غیر منصفانہ فائدہ پہنچاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں حکومت نے خواتین کے لیے ہر مہینے 1500 روپے دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ انتخابات سے فوراً پہلے، تین مہینوں کی رقم خواتین کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کر دی گئی۔ اس اقدام کا واضح نتیجہ یہ نکلا کہ لوک سبھا انتخابات میں بری طرح ہارنے والے اتحاد نے اسمبلی انتخابات میں آسانی سے کامیابی حاصل کر لی۔

  یہ الگ بات ہے کہ مہاراشٹر میں انتخابات کے عمل پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں ''لاڈلی بہنا یوجنا'' کے ذریعے بی جے پی نے انتخابات کو متاثر کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی اسکیمیں ووٹ کے لیے رشوت دینے کے زمرے میں نہیں آتیں؟ فارم بھروا کر رجسٹریشن کے عمل پر بھی اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ عمل ایک طرف تو اسکیم کے فائدہ اٹھانے والوں کی نشاندہی کرتا ہے، لیکن دوسری طرف، یہ سیاسی جماعتوں کو عوام کے حساس ڈیٹا تک رسائی بھی فراہم کرتا ہے، جو کہ غیر اخلاقی اور غیر قانونی معلوم ہوتا ہے۔ ایسی اسکیموں کے ذریعے عوام کے جذبات سے کھیلنا اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے معاشی دباؤ ڈالنا، جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ کیا یہ سیاست کو اخلاقیات سے دور لے جانے کا ایک اور قدم نہیں؟ عوامی فلاح کے نام پر اس طرح کے اقدامات درحقیقت سیاسی فائدے کے حصول کا ایک ذریعہ بن گئے ہیں، جو ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر توجہ دینا ضروری ہے۔

  مفت سہولیات کے سیاسی وعدے صرف انتخابی حربے نہیں بلکہ جمہوری اقدار کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکے ہیں۔ ایسے وعدے ووٹروں کو ایک طرح سے مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان جماعتوں کو ووٹ دیں، اور جو ووٹ نہیں دیتے، ان کے لیے دباؤ اور نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ مسئلہ دو دہائی پہلے سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی درخواست کے ذریعے اٹھایا گیا تھا، جہاں تمل ناڈو حکومت کی اسکیم کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ تاہم، سپریم کورٹ نے اس وقت یہ فیصلہ دیا کہ ایسی اسکیمیں رشوت خوری کے زمرے میں نہیں آتیں۔ اس کے باوجود، دو سال پہلے ایک اور عوامی پٹیشن کے دوران، انتخابی کمیشن نے عدالت میں حلف نامہ دیا کہ مفت سہولیات کے وعدوں پر کارروائی کرنا اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

   اس صورت حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ان اسکیموں میں حصہ لے رہی ہیں، لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان جمہوری نظام کو ہو رہا ہے۔ یہ وعدے ووٹروں کی حقیقی خواہشات اور ان کے مینڈیٹ کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام سے یہ حق چھین لیا جاتا ہے کہ وہ خراب کارکردگی کے سبب حکومت کو تبدیل کر سکیں۔ یہ حکمت عملی آخر کار سیاسی جماعتوں کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ جب سیاست عوامی فلاح کی جگہ ووٹوں کے لیے مراعات دینے کی دوڑ بن جائے تو جمہوریت کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے۔ عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے، حکومتیں اور جماعتیں محض انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ جاتی ہیں۔یہ عمل نہ صرف جمہوری اقدار کو مجروح کرتا ہے بلکہ سیاست کو اخلاقیات سے بھی دور لے جاتا ہے۔ اگر اس مسئلے پر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ طریقے تمام سیاسی جماعتوں اور عوامی اعتماد دونوں کو نقصان پہنچائیں گے، اور جمہوریت محض ایک کھوکھلے نظام کی صورت اختیار کر لے گی۔

   آج جو سیاسی جماعتیں مفت سہولیات اور وعدوں کا فائدہ اٹھا کر اقتدار حاصل کر رہی ہیں، وہی کل اسی رجحان کی وجہ سے نقصان بھی اٹھا سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل تلاش کریں اور اس پر اتفاق رائے قائم کریں۔ حکومتوں کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اسکیمیں بنانے اور انہیں عملی جامہ پہنانے سے روکا نہیں جا سکتا، لیکن یہ بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ ان اسکیموں کا انتخابی فائدے کے لیے غلط استعمال نہ ہو۔ اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ قانونی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، انتخابات کے ایک سال پہلے سے حکومتوں کو کسی نئی اسکیم یا اعلان سے روک دیا جائے۔ اس طرح کے ضوابط کے نفاذ کی ذمہ داری الیکشن کمیشن یا کسی آزاد اور غیر جانبدار ادارے کو دی جا سکتی ہے، لیکن یہ بھی لازم ہے کہ ایسا ادارہ ہر طرح کے شکوک و شبہات سے بالاتر ہو۔ جمہوریت کی بقا کے لیے انتخابی میدان کو مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا چاہیے، جہاں حکومتی جماعت اپنے کام کے ریکارڈ پر اور مخالف جماعت متبادل نظریات کے ساتھ مقابلے میں اترے۔ اگر یہ اصلاحات نافذ نہیں کی گئیں تو جمہوریت کا اصل مقصد خطرے میں پڑ جائے گا۔ رشوت کی شکل میں سیاسی وعدوں اور مراعات کا سلسلہ جاری رہا تو جمہوری نظام مذاق بن کر رہ جائے گا۔

   یہ ضروری ہے کہ انتخابی سیاست میں اخلاقیات کو بحال کیا جائے۔ عوام کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اپنی حکومت کا انتخاب اس بنیاد پر کریں کہ کون ان کے مسائل کو بہتر طور پر حل کر سکتا ہے، نہ کہ اس بنیاد پر کہ کون زیادہ مراعات یا مفت سہولیات دینے کے وعدے کر رہا ہے۔ اگر اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو جمہوری نظام کے ساتھ ساتھ عوام کا اعتماد بھی ٹوٹ جائے گا، اور یہ اہمیت ختم ہو جائے گی کہ اقتدار میں کون سب سے زیادہ اہل ہے۔

 

تحریر: محمد فداء ا لمصطفیٰ قادریؔ

رابطہ نمبر:9037099731

ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی،ملاپورم،کیرالا 

 

تبصرے