نیا سال، نیا عزم: زندگی کے مقصد کو سمجھنا بھی ضروری ہے!


 

نیا سال، نیا عزم: زندگی کے مقصد کو سمجھنا بھی ضروری ہے! 

    وقت زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے، جسے اگر ضائع کیا جائے تو کبھی واپس نہیں لایا جا سکتا۔ انسان کی زندگی وقت کی ایک ایسی لڑی ہے، جو لمحہ بہ لمحہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتی ہے۔ ہر گزرتا ہوا لمحہ یہ سوال چھوڑتا ہے کہ کیا ہم نے اسے اپنی زندگی کے حقیقی مقصد کے مطابق گزارا؟ سال کا اختتام اور نئے سال کا آغاز ہمیں ایک نایاب موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالیں، اپنی زندگی کے اصول و مقاصد کو دوبارہ ترتیب دیں، اور ایک نئی راہ پر گامزن ہوں۔ آج کا انسان دنیاوی مصروفیات، مادی چمک دمک، اور عارضی خوشیوں میں اتنا محو ہو چکا ہے کہ وقت کی اصل قیمت کو بھول بیٹھا ہے۔ یہ غفلت صرف انفرادی سطح پر نقصان دہ نہیں بلکہ ہماری اجتماعی زندگی پر بھی گہرے اثرات ڈالتی ہے۔ سال نو کی تقریبات کے شور و غل میں، ہمیں ایک لمحہ رک کر یہ سوچنا چاہیے کہ کیا یہ سرگرمیاں ہماری دینی تعلیمات اور روحانی اقدار سے مطابقت رکھتی ہیں؟ کیا ہم اپنی زندگی کو اس طرح گزار رہے ہیں، جس طرح ایک مسلمان کے شایان شان ہے؟

    اسلام ہمیں وقت کی قدردانی کا سبق دیتا ہے اور ہماری زندگی کو اللہ کی رضا کے تابع بنانے کی تلقین کرتا ہے۔ سال نو کی آمد محض کیلنڈر کے صفحات پلٹنے کا نام نہیں بلکہ اپنے اعمال کا جائزہ لینے، اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھنے، اور مستقبل کے لیے مثبت اہداف متعین کرنے کا موقع ہے۔ یہ وقت اس امر کا متقاضی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے مقصد کو دوبارہ سمجھیں اور اپنی ترجیحات کو درست کریں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس موقع کو دنیاوی مشاغل اور بے مقصد سرگرمیوں میں گنوانے کے بجائے اپنی ذات کی تعمیر اور اصلاح کے لیے استعمال کریں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی زندگی کا محاسبہ کریں، اپنی غلطیوں کو پہچانیں اور انہیں درست کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ وقت کا صحیح استعمال نہ صرف دنیا میں کامیابی کی ضمانت ہے بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کا ذریعہ بنے گا۔

    یہ ایک یاد دہانی ہے کہ وقت ایک عظیم نعمت اور ذمہ داری ہے۔ اس کا شعور، اس کا احترام، اور اس کا درست استعمال ہی وہ بنیاد ہے جو ایک کامیاب، بامقصد اور اطمینان بخش زندگی کی طرف لے جاتی ہے۔ نئے سال کا آغاز ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو سنواریں، اپنی منزل پر نظر رکھیں، اور وہ سب کچھ کریں جو ہماری دنیا اور آخرت دونوں کے لیے بہتر ہو۔ وقت کی یہ امانت ہم سے جواب دہی کا تقاضا کرتی ہے، اور اس کا صحیح استعمال ہی ہماری کامیابی کی کنجی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں سالِ نو کو جشن کی صورت میں منایا جانا ایک عام روایت بن چکا ہے۔ اس موقع پر لوگ خوشیاں مناتے ہیں، شاندار آتش بازی کرتے ہیں، رنگا رنگ محفلیں سجائی جاتی ہیں، اور تفریح کی مختلف سرگرمیاں رات بھر جاری رہتی ہیں۔ یہ سب کچھ دراصل مغربی ثقافت کی عکاسی ہے، جو رفتہ رفتہ دنیا کے دیگر معاشروں میں بھی اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بھی یہ مغربی رجحانات تیزی سے فروغ پا رہے ہیں۔ ہر سال کے اختتام پر ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر ان تقریبات کی تشہیر ہوتی ہے، اور عوام ان تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

    اسلامی نقطہ نظر سے سال نو کی یہ تقریبات وقت، وسائل اور اقدار کی بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی کا اصل مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے، نہ کہ دنیاوی خوشیوں کے پیچھے دوڑنا۔ قرآن کریم ہمیں بار بار متنبہ کرتا ہے کہ دنیاوی زندگی صرف ایک کھیل اور تماشا ہے، جبکہ اصل زندگی وہ ہے جو آخرت کی کامیابی سے وابستہ ہے۔ سال نو کی تقریبات میں شامل ہو کر ہم اپنی اسلامی شناخت اور اقدار کو مجروح کرتے ہیں۔ ان تقریبات میں ہونے والی سرگرمیاں، جیسے آتش بازی، موسیقی، بے ہودہ محفلیں، اور فضول خرچی، اسلام کی تعلیمات کے بالکل منافی ہیں۔ یہ اعمال نہ صرف ہمارے وقت اور وسائل کا زیاں ہیں بلکہ ہمیں اپنے اصل مقصد یعنی اللہ کے قریب ہونے سے بھی دور لے جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ آیا یہ سرگرمیاں ہمیں اللہ کے قریب کر رہی ہیں یا مزید دور؟ اسلامی تہذیب ہمیں سادگی، وقار، اور اللہ کے ذکر کو زندگی کا محور بنانے کی تعلیم دیتی ہے۔ سال نو کی تقریبات ان اسلامی اقدار کے برعکس ہیں، کیونکہ یہ مادیت، فخر، اور عارضی خوشیوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ ایسے میں ہمیں چاہیے کہ ہم ان تقریبات سے اجتناب کریں اور اپنی اسلامی شناخت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔

    نئے سال کا آغاز ایک سنجیدہ موقع ہے، جو ہمیں اپنی زندگی کا جائزہ لینے اور آئندہ کے لیے بہتر اہداف متعین کرنے کا درس دیتا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ پچھلے سال میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ کیا ہم نے اپنی زندگی اللہ کی رضا کے مطابق گزاری یا دنیاوی فریب میں مبتلا ہو کر وقت ضائع کر دیا؟ اسلام نے دنیا کو ایک عارضی قیام اور آخرت کو اصل منزل قرار دیا ہے۔ اس لیے سال نو کی تقریبات میں شامل ہونا اور ان میں دلچسپی لینا ایک مسلمان کے لیے کسی طور مناسب نہیں۔ ہمیں اپنی زندگی کو ایسے اعمال سے آراستہ کرنا چاہیے جو ہماری دنیا اور آخرت دونوں کے لیے فائدہ مند ہوں۔ خوشی ایک ایسا انمول جذبہ ہے جس کی تلاش میں ہر انسان اپنی زندگی کا بڑا حصہ صرف کرتا ہے، لیکن ہر فرد کے نزدیک خوشی کا تصور مختلف ہوتا ہے۔ اسلام نے اس معاملے میں رہنمائی فراہم کی ہے اور خوشی کے حقیقی معیار کو اللہ کی رضا اور اس کے احکامات کی پیروی میں رکھا ہے۔ جو خوشی اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کے مطابق ہو، وہی دائمی اور حقیقی خوشی ہے۔ دنیاوی جشن اور میلوں میں خوشی تلاش کرنا ایک ایسا سراب ہے جو انسان کو اس کے مقصدِ حیات سے دور کر دیتا ہے۔

    آج کی دنیا، جہاں مادی ترقی اور سہولیات نے زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے، ہم نے خوشی کے اصل معنی کھو دیے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مال و دولت، شہرت، اور عارضی تفریح خوشی کا ذریعہ ہیں، حالانکہ یہ سب وقتی ہیں اور سکون دینے کے بجائے بے سکونی کو بڑھاتے ہیں۔ قرآن مجید بارہا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دنیاوی زندگی ایک فریب ہے اور حقیقی خوشی وہی ہے جو آخرت میں اللہ کی رضا اور جنت کی نعمتوں کے ساتھ حاصل ہوگی۔ سالِ نو کی تقریبات کو خوشی کا ذریعہ سمجھنا ہماری اسلامی اقدار اور تعلیمات کے خلاف ہے۔ یہ تقریبات وقتی سکون تو دے سکتی ہیں، لیکن ان کا انجام اکثر افسوس اور ندامت کی صورت میں ہوتا ہے۔ حقیقی خوشی وہی ہے جو اللہ کی رضا اور اس کی قربت کے ذریعے حاصل ہو۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی خوشیوں کو اس طرح ترتیب دیں کہ وہ ہماری آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنیں، نہ کہ دنیاوی دھوکے کا حصہ۔

    اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ خوشی کا تعلق ہماری نیت اور عمل سے ہے۔ اگر ہماری نیت اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہو اور ہمارا عمل اس کے احکامات کے مطابق ہو، تو یہ خوشی نہ صرف دائمی ہوگی بلکہ اللہ کی برکتوں سے بھی مالا مال ہوگی۔ خوشی کو مادی چیزوں کے ساتھ مشروط کرنا ہماری روحانی ترقی کو روک دیتا ہے۔ سالِ نو کا آغاز ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے مقصد پر غور کریں، اپنی ترجیحات کو درست کریں، اور اپنی خوشیوں کو اللہ کی رضا کے مطابق ترتیب دیں۔ یہ وقت ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دنیاوی خوشیوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنی زندگی کو آخرت کی تیاری کے لیے وقف کریں۔ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اپنی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی رضا کے لیے گزاریں اور اپنے اعمال کو اس کے احکامات کے تابع رکھیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں حقیقی خوشی اور سکون تک پہنچا سکتا ہے۔

    اسلام میں خود احتسابی کی اہمیت کو بار بار قرآن و حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لے اور اپنی زندگی میں بہتری لانے کے لیے کوشاں رہے۔ سال کا اختتام اور نئے سال کا آغاز ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، تاکہ ہم اپنے مقصدِ حیات کو سمجھ سکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: ’’پھر انہیں اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا‘‘۔ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ مرنے کے بعد جب انسان کے اعمال کا حساب ہو گا، تو اس سے قبل انسان کو چاہیے کہ وہ خود اپنا محاسبہ کرے۔ انسان اپنی عمر کو اپنی عبادات اور نیک اعمال میں گزارے، کیونکہ یہی اس کی کامیابی اور نجات کا راستہ ہے۔ گناہوں میں زندگی گزارنا، اس کے خسارے کا سبب بنتا ہے۔

    حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’اپنے اعمال کا حساب خود کرو قبل اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے‘‘۔ یہ قول ہمیں ایک اہم پیغام دیتا ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی کے ہر لمحے کا حساب خود لینا چاہیے۔ یہ خود احتسابی انسان کو اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کو پہچاننے اور انہیں دور کرنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ امام  غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انسان کو ہر رات کو سونے سے پہلے ایک خاص وقت نکالنا چاہیے تاکہ وہ اپنے دن بھر کے اعمال کا حساب لے سکے۔ اس وقت اسے اپنے نفس کی مراقبت کرنی چاہیے کیونکہ نفس بڑا مکار ہوتا ہے، اور وہ اپنی خواہشات کو اطاعت کی شکل میں پیش کرتا ہے تاکہ انسان اسے فائدہ سمجھ کر قبول کر لے، حالانکہ وہ حقیقت میں نقصان دہ ہوتا ہے۔ اس لیے اپنے نفس کے محاسبے میں انتہائی احتیاط اور دقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب باتیں اس بات کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں کہ انسان کو اپنی زندگی میں احتساب کرنا چاہیے، تاکہ وہ اللہ کی رضا کی جانب بڑھ سکے اور اپنی آخرت کی کامیابی کے لیے اپنے اعمال کو درست کر سکے۔

    نماز، جو ایک مسلمان کی زندگی کا سب سے اہم رکن ہے، ہماری روحانی ترقی اور اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے۔ پانچ وقت کی نمازیں ہماری زندگی کی بنیاد ہیں، اور یہ فرض عبادت روزانہ ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ اگر ہم نے اپنی نمازوں کو وقت پر اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا نہیں کیا تو یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ نمازوں میں سستی اور کوتاہی کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنے رب کی عظمت اور اہمیت کو نظرانداز کیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے پچھلے سال کا جائزہ لیں اور اس بات کا احتساب کریں کہ کب ہم نے نماز میں غفلت کی، اور آئندہ کے لیے مضبوط ارادہ کریں کہ ہم اپنے رب کی رضا کی خاطر ہر نماز کو باقاعدگی سے ادا کریں گے۔ رمضان کے روزے، جو سال بھر میں فرض ہوتے ہیں، ہماری روحانی پاکیزگی اور تقویٰ کی نشانی ہیں۔ ہمیں یہ سوال خود سے پوچھنا چاہیے کہ آیا ہم نے رمضان کے روزے صرف بھوک اور پیاس برداشت کرنے کے لیے رکھے، یا واقعی اللہ کی رضا کے لیے اپنی خواہشات کو قابو کیا اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کی؟ اس کے علاوہ، نفل روزے جیسے پیر اور جمعرات کے روزے بھی روحانی ترقی کے اہم ذرائع ہیں۔ ہمیں ان نفل روزوں کا بھی احتساب کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ آیا ہم نے ان کا بھی اہتمام کیا یا نہیں۔ زکوٰۃ اور صدقات، جو ہمارے مال کا فرضی حق ہیں، ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ان حقوق کو کتنا پورا کیا۔ زکوٰۃ، جو ایک فرض عبادت ہے، کو ادا کرنے میں غفلت برتنا بہت سے افراد کی عادت بن گئی ہے۔ ہمیں اپنے مالی معاملات کا احتساب کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے اپنے مال کا حق کس حد تک ادا کیا ہے۔ ان عبادات کو ادا کرنے میں کوتاہی نہ صرف ہماری روحانیت کو متاثر کرتی ہے بلکہ ہمارے اعمال کی قبولیت میں بھی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اگر ہم اپنے ہر عمل کا احتساب کریں اور اس بات کا عزم کریں کہ آئندہ اپنی عبادات کو بہتر اور باخلوص طریقے سے ادا کریں گے، تو یہ ہمارے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنے گا۔

    قرآن مجید، جو ہماری زندگی کا حقیقی رہنما ہے، ہماری رہنمائی کے لیے اللہ کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔ کیا ہم نے سال بھر میں اسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا؟ کیا ہم نے اس کی تلاوت کی، اس کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا؟ یہ سوالات ہر مسلمان کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر ہم نے قرآن سے دوری اختیار کی ہے یا اس کے پیغام کو نظرانداز کیا ہے تو ہمیں فوراً اپنی روش بدلنی چاہیے اور اپنی زندگی میں قرآن کو ایک محور کے طور پر شامل کرنا چاہیے۔ قرآن کی تعلیمات کو اپنی روزمرہ زندگی میں اپنانا ہمارے لیے نہایت ضروری ہے تاکہ ہم اپنی زندگی کو بہتر اور اللہ کی رضا کے مطابق گزار سکیں۔ عبادات کے علاوہ، ہمیں اپنے اخلاق اور سماجی تعلقات کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے۔ اسلامی تعلیمات ہمیں اپنے والدین، رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتی ہیں۔ کیا ہم نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا؟ کیا ہم نے کبھی کسی کا دل دکھایا یا کسی کا حق مارا؟ اخلاقیات اسلام کا بنیادی حصہ ہیں، اور ہمیں اپنے اخلاقی معیار کو بلند کرنا چاہیے تاکہ ہم دوسروں کے لیے بہتر انسان بن سکیں۔

    اسی طرح، ہمیں اپنے پیشے اور کاروباری معاملات کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ کیا ہم نے کسی قسم کی دھوکہ دہی کی؟ کیا ہم نے کسی کا حق چھینا؟ یہ تمام سوالات ہمارے عملی زندگی سے متعلق ہیں، اور ان کا محاسبہ ہماری ذاتی اصلاح کے لیے ضروری ہے۔ اسلام ہمیں سچائی، ایمانداری اور انصاف کی تعلیم دیتا ہے، اور ہمیں اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں ان اصولوں کو اپنانا چاہیے۔ یہ تمام پہلو ہماری زندگی کا حصہ ہیں، اور ان کا محاسبہ کرنا نہ صرف ہماری دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے بھی ضروری ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کے ہر گوشے میں اللہ کی رضا کو مقدم رکھتے ہوئے بہتری کی کوشش کرنی چاہیے۔ 

    بالکل، سالِ نو کا آغاز ایک نیا موقع ہوتا ہے، جو ہماری زندگیوں میں بہتر تبدیلیوں کی طرف قدم بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ وقت ہمیں اپنی گزشتہ سال کی کوتاہیوں، غلطیوں اور کمیوں پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے تاکہ ہم اپنے اعمال میں بہتری لا سکیں اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مضبوط عزم کے ساتھ آگے بڑھیں۔ سال نو کا آغاز ہمیں اپنے دینی، اخلاقی اور معاشرتی فرائض کا شعور دلاتا ہے، اور یہ سکھاتا ہے کہ ہر نئے دن کو ایک نئے عزم کے ساتھ گزارنا چاہیے۔ یہ وقت ہمیں اپنے ارادوں اور کوششوں کو مضبوط بنانے، اپنے اندر کی صلاحیتوں کو پہچاننے اور دوسروں کی مدد کرنے کا موقع دیتا ہے۔ معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس اور انہیں پورا کرنا ہمارے شخصی اور اجتماعی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے روایات، اقدار اور تعلیمات کو مضبوطی سے اپنائیں تاکہ ہم ایک بہتر اور روشن مستقبل کی طرف قدم بڑھا سکیں۔

    سال نو کا آغاز صرف ایک کیلنڈر کی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک نیا عزم اور نئی توانائی کا پیغام ہے جو ہمیں اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ وقت ہمیں اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیوں کی جانب قدم بڑھانے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنے کی اہمیت سکھاتا ہے۔

 

تحریر: محمد فداء ا لمصطفیٰ قادریؔ

رابطہ نمبر:9037099731

ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی،ملاپورم،کیرالا 

 


تبصرے