امریکی انتخابات کا تحقیقی جائزہ!

 امریکی انتخابات کا تحقیقی جائزہ!

    امریکی انتخابات کی خصوصیات اوراہمیت کسی بھی عقلمند سے مخفی نہیں۔ سب سے پہلے یہ جاننا بہت ہی اہم ہے کہ امریکہ میں دو بڑی سیاسی جماعتیں اور پارٹیاں، ڈیموکریٹک اور ریپبلک، انتخابات میں حصہ لیتی ہے اور ان کی مہمات وسیع پیمانے پر ملک بھر میں چلتی ہے۔ ہر چار سال بعد صدارتی انتخابات ہوتا ہے، جس میں صدر کا انتخاب عوامی ووٹنگ اور الیکٹورل کالج کے ذریعے کیا جاتا ہے۔الیکٹورل کالج ایک منفرد نظام اور سسٹم ہے جس کے تحت ہر ریاست کو آبادی کے لحاظ سے مخصوص تعداد میں الیکٹرز دیے جاتے ہیں، اور زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی کو ریاست کے تمام الیکٹرز مل جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، کچھ ریاستیں جو کہ سوئنگ اسٹیٹس کہلاتی ہیں، فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، جیسے کہ فلوریڈا اور اوہائیو۔

   امریکی انتخابات کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ امیدوار اپنی مہمات کے دوران سوشل میڈیا، ٹیلی ویژن، اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹرز تک پہنچ سکیں۔ اس کے علاوہ، امریکی انتخابات میں عوامی مباحثے اور مناظرے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں جہاں امیدوار اپنی پالیسیاں اور نظریات عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔مزید برآں، امریکی انتخابات میں ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کا نظام بھی رائج ہے، جس سے ووٹرز کو دور دراز سے ووٹ ڈالنے کی سہولت ملتی ہے۔ اس طرح کا انتخابی نظام امریکی جمہوریت کی پختگی اور شفافیت کو ظاہر کرتا ہے۔

    امریکہ کا صدارتی انتخابات عالمی سطح پر انتہائی اہمیت رکھتاہے کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور طاقتور ترین ملک کی قیادت کے فیصلے عالمی سیاست، معیشت، اور بین الاقوامی تعلقات پر گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ امریکہ کا صدر نہ صرف اندرون ملک پالیسی سازی بلکہ دنیا بھر کے معاملات، جیسے کہ تجارت، ماحولیاتی تبدیلی، اور سیکیورٹی پالیسیوں میں بھی مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ اس انتخاب کے نتائج دیگر ممالک کی معیشتوں، عالمی مالیاتی منڈیوں، اور مختلف بین الاقوامی معاہدوں پر اثرانداز ہو سکتا ہے، اس لیے یہ انتخابات عالمی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔

    امریکہ کا صدارتی انتخابی نظام ایک منفرد اور مشکل عمل ہے جو عوامی ووٹ اور الیکٹورل کالج پر مبنی ہے۔ عوام براہ راست صدر کو منتخب نہیں کرتے بلکہ ہر ریاست سے منتخب ہونے والے الیکٹرز کے ذریعے ووٹ ڈالا جاتا ہے۔ ان الیکٹرز کی تعداد ہر ریاست میں آبادی کے حساب سے طے ہوتی ہے۔ ہر ریاست میں عوامی ووٹوں کی بنیاد پر زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کے تمام الیکٹرز اُس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔ 538 الیکٹرز میں سے 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار صدر منتخب ہوتا ہے۔ یہ نظام امریکی جمہوری روایات کی بنیاد ہے۔

    اسی طرح دو تین دن قبل امریکہ میں الیکشن بہت ہی شاندار طریقے اور نہایت ہی نظم و نسق سے چلایا گیا جس میں اخوت اور بھائی چربی کا دس دیتے ہوئے امریکی حکومت نے وہاں کے امریکی باشندوں کو اپنے حساب اور من پسند سے اپنے پسندیدہ شخص کو ووٹ دینے کا موقع دیا۔ امریکہ کی بات ہو رہی ہے تو یہ بات بھی ذہن نشیں کرنے کی بے حد ضرورت ہے کہ امریکہ عالمی سطح پر ایک بہت ہی بڑا ڈیموکریٹک ملک ہے جس میں تمام تر لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے، ہر کسی کو مکمل آزادی دی جاتی ہے، ہر فرد خود کو آزادی محسوس کرتا ہے اور بلا جھجک اپنے خیال کا اظہار کرتا ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر قوم ترقی کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے پرجا کاخیال رکھنا قطعا واجب اور فرض ہے۔

     زیادہ طول نہ دیتے ہوئے امریکہ کے صدارتی انتخاب کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ پتا کرتے ہیں کہ کس پارٹی نے کتنا ووٹ حاصل کیا؟ اور کس ٹیم کی فتح ہوئی؟ ویسے تو امریکہ میں کل دو اہم اور مشہور پارٹیاں حکومت کرتی ہیں ایک رپبلک پارٹی اور دوسری ڈیموکریٹک پارٹی جس کا لیڈر ڈونالڈ ٹرمپ ہے۔

   امسال یعنی 2024 کے الیکشن میں اکثریت کے ساتھ ڈینال ٹرمپ کی سرکار بن گئی ہے۔تو آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طریقے سے ڈونالڈ ٹرمپ کی سرکار سکتہ میں آئی؟ اور کس طرح لوگوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کو کوٹ دیا؟ جس کی بنسبت ڈونالڈ ٹرمپ کو فتحیابی حاصل ہوئی۔اس کی تہہ تک جاتے ہیں تو یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ امسال کے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان کافی بہترین کا مقابلہ دیکھنے کو ملا اور دونوں لیڈروں کے حامیوں نے اپنا بھرپور مظاہرہ کیا اور یہ ثابت کیا کہ وہ اپنے لیڈر کو لے کر بے حد مخلص اور ایماندار ہیں اور اپنے بہتر مستقبل کے لیے خواہش مند ہیں۔

      آئیے بی بی سی کی رپورٹ پڑھتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں: بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک جانب جہاں 42 فیصد مردوں نے کملا ہیرس کو ووٹ دیا ہے جبکہ 55 فیصد مردوں نے ٹرمپ کوووٹ دیا ہے۔ 53 فیصد عورتوں نے کملا ہیرس کوٹ دیا ہے تو 45 فیصد عورتوں نے ٹرمپ کوٹ دیا ہے۔وہیں دوسری جانب 41 فیصد سفید لوگوں نے کملا ہیرس کوٹ دیا ہے تو 57 فیصد حضرات نے ٹرمپ کوٹ دیا ہے۔ 85 فیصد کالے لوگو نے کملا ہیرس کو ووٹ دیا ہے تو 13 فیصد کالے عوام نے ٹرمپ کوٹ دیا ہے۔52 فیصد ہسپانک اور لیٹن لوگوں نے کملا کوٹ دیا ہے تو 46 فیصد ہسپانک اور لیٹن عوام نے ٹرمپ کوٹ دیا ہے۔54 فیصد ایشیا کے عوام الناس نے کملا کوووٹ دیا ہے تو 39 فیصد ایشیا کے عوام نے ٹرمپ کو اوٹ دیا ہے باقی حضرات نے 42 فیصد ووٹ کملا کو دیا ہے تو 54 فیصد ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے۔

     اور تحقیق کرتے ہیں اور رپورٹ کا تحقیق جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات اظہر من الشمس شمس ہو جاتی ہے کہ جہاں ایک جانب 18 سے 29 سال کے عمر والوں نے 54 فیصد اوٹ کملا ہیرس کو دیا ہے تو 43 فیصد عوام نے ٹرمپ کو ووٹ دیا تو وہیں دوسری جانب 30 سال سے لے کر 44 سال تک کے حضرات نے 49 فیصد اوٹ کملا کو دیا ہے تو 48 فیصد ووٹ ٹرمپ کو دیا ہے تو وہیں تیسری جانب 45 سال سے لے کر 64 سال تک کے حضرات نے 44 فیصد اوٹ کملا کو دیا ہے تو 54 فیصد نے ووٹ ٹرمپ کو دیا ہے۔علاوہ ازی 65 سال کے حضرات نے 49 فیصد اوٹ کملا ہیرس کو دیا تو وہیں 49 فیصد ووٹ ٹرمپ کو بھی دیا۔ اس رپورٹ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ امریکہ کے لوگ الیکشن کو لے کر بے حد تفکر اور ذمہ دار ہیں اور اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے بہتر انداز میں اپنے حق کو ووٹ اور اپنے بہتر اور اچھے لیڈر کا انتخاب کیا۔

    آگے بڑھ کر جب ہم سکون اور مطمئن دل سے بی بی سی کی رپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کالج گریجویشن کے طلباء نے 55 فیصد ووٹ کملا ہیرس کو دیا ہے تو وہی کالج گریجویشن کے طلباء نے 42 فیصد ووٹ ٹرمپ کو دیا ہے۔اس کے علاوہ جو بقیہ طلبہ ہیں ان میں 42 فیصد طلبہ نے کملا ہیرس کو ووٹ دیا ہے اور 56 فیصد طلباء نے ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے جس کا مدلل اور محقق رپورٹ بی بی سی کے اس رپورٹ میں موجود ہے۔بالجملہ امریکہ میں مکمل 538 الیکٹوریل سیٹ ہے جس میں سے ڈونالڈ ٹرمپ کو 312 سیٹ ملی او رکملا ہیرس کو 226سیٹ ملی جس کے نتیجے میں ڈونالڈ ٹرمپ اکثریت کے ساتھ اس 2024 کے الیکشن میں فتحیاب ہوااور کملا ہیرس کو ہار کاسامنا کرنا پڑا۔ خیر ویسے کوئی بات نہیں یہ میدانِ عمل ہے کوئی ہارتاہے تو کوئی فتحیاب ہوتا ہے اور اخیر میں کملا ہیرس نے ہمیں یہ بتایا کہ ”میں جانتی ہوں کہ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم ایک تاریک وقت میں داخل ہو رہے ہیں، لیکن ہم سب کے فائدے کے لیے، مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ امریکہ، اگر ایسا ہے تو، ہم آسمان کو ایک شاندار، ارب ستاروں کی روشنی سے بھر دیں۔ امید، ایمان، سچائی اور خدمت کی روشنی۔“(کملا ہیرس)

   اتنا اورجان لیں کہ امریکی انتخابات کا نظام دنیا بھر میں ایک منفرد اور پیچیدہ نظام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس میں نہ صرف جمہوریت کے اصولوں کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ عوام کو مختلف طریقوں سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کی آزادی بھی ملتی ہے۔ الیکٹورل کالج کی موجودگی سے کچھ ریاستیں انتخابات میں زیادہ اہمیت اختیار کرلیتی ہے، جس سے نتائج پر بھی خاصا اثر پڑتا ہے۔ اس منفرد نظام میں بعض اوقات ایسے نتائج بھی سامنے آتے ہیں جو عوامی ووٹوں کے تناسب سے مختلف ہوتے ہیں۔

    امریکی انتخابات میں میڈیا، سوشل میڈیا، اور عوامی مباحثے خاص کردار ادا کرتے ہیں، جو امیدواروں کی سوچ اور ان کے منشور کو عوام تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کا نظام بھی ان انتخابات کی ایک خصوصیت ہے جو عوام کو سہولت فراہم کرتا ہے۔ یہ تمام عوامل امریکی انتخابات کو جمہوریت کا ایک مضبوط نمونہ بناتے ہیں اور دنیا بھر کے لوگوں کو انتخابی عمل کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے اور جمہوری اصولوں کو اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔                                                                 

 

تحریر:محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ

رابطہ نمبر:9037099731

ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی،ملاپورم،کیرالا  

تبصرے