فیضِ ملت حضرت علامہ فیض احمد اویسی رضوی علیہ الرحمہ ایک ہمہ جہت شخصیت

 

فیضِ ملت حضرت علامہ فیض احمد اویسی رضوی علیہ الرحمہ ایک ہمہ جہت شخصیت

مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے،  انسان   نکلتا   ہے

                              ( میر تقی میر)


    اللہ نے  حضرت انسان کو اپنی تخلیق کا شہ کار بنایا بلکہ اس میں تمام مخلوقات کے اعلی اوصاف اور بے پناہ صلاحیتیں  رکھ کر  جملہ موجودات اور جمیع کائنات کا  اسے خلاصہ اور دیباچہ بنا دیا۔انسانوں میں سے وہ سعید روحیں جنہوں نے عہدِ الست (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ )کو یاد رکھا وہ صاحبِ ایمان و ایقان ہوئےاورجنہوں نے اس عہد کو فراموش کردیا، وہ کفار و منکرین ٹھرے۔ پھر اہل ایمان میں  سے  جنہوں نے حضرات انبیاء علیہم السلام کی اتباع و سچی پیروی کی اور آسمانی ہدایات کی روشنی میں اپنے ظاھر و باطن کو مصفی اور مزکی کر لیا ، ان پر عالمِ جبروت و ملکوت کی راہیں کھلیں ، وہ الہی نور کی برکت سے جلال و جمال کے انوار و تجلیات کا مشاھدہ کرنے لگے اور اللہ رب العزت کے مُنعَم علیھم یعنی انعام یافتہ بندوں میں ان کا شمار ہوا ۔ ان قدسی صفات نفوس میں بعض پر جذب کی کیفیت طاری رہی اور وہ خلق سے کنارہ کش ہو کر خلوت گزیں ہو گئےاور بعض کو حق تعالی نے افادۂِ خلق اورفیض رسانی عام پر مامور فرما کر ان کے وجود کو فیضِ مجسم بنا دیا ۔

     پھرچونکہ مخلوق ان سے علمی و روحانی استفادہ کرتی ہے ،اس لیے یہ حضرات اپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتے ہیں اور فیّاضِ ازل بھی ان پر اپنی فیّاضی کی انتہا کر دیتا ہے۔ یہ افراد علمِ نافع،عملِ صالح ، عشقِ خود آگاہ اور فقرِ غیور کی دولت  کے ساتھ ساتھ اخلاص اور باطنی طہارت و نفاست سے بھی مالا مال ہوتے ہیں۔انہیں حضرات میں ایک عظیم المرتبت ہستی حضرت شیخ القرآن و الحدیث ، فیض ملت ، صاحبِ تصانیفِ کثیرہ ، حضرت علامہ فیض احمد اویسی رحمة اللہ علیہ کی بھی ہے۔

    حضور فیض ملت علامہ اویسی رحمتہ اللہ علیہ کی ذات میں اللّٰہ رب العزت نے بے شمار خوبیوں کو یکجا کر دیا تھا،علمی جاہ و جلالت،خوف و خشیت ، فقرِ غیور کی دولت، عشقِ ذاتِ رسالت، جودو سخاوت، عبادت و ریاضت، تقوی و طہارت، اخلاص و للہیت، استغنا و قناعت، دینی حمیت و مسلکی غیرت وغیرہ اوصاف یہاں بحسن و کمال نظر آتے ہیں۔ آپ اپنے عہد میں بجا طور پر اس شعر کے مصداق تھے: 

لیس علی اللہ بمستنکر

ان یجمع العالم فی واحدٍ


    ترجمہ: "کہ اللہ کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے کہ وہ سارے عالم کو کسی ایک ذات میں جمع کر دے"۔


    علمی تبحر و فنی تنوّع کا یہ عالم تھا کہ ہر فن پر قلم اٹھایا، تفسیر،حدیث، فقہ، اصول، منطق،معانی و بلاغت، فلسفہ، مناظرہ، عقائد، شاعری، طب، انساب، صرف و نحو، تصوف و تاریخ ،سیرت اور دیگر بے شمار علوم و فنون میں سے کوئی ایسا علم نہ ہو گا جس پر آپ کی تصنیف یا رسالہ موجود نہ ہو۔ہر کتاب بیش بہا معلومات کا خزینہ اور دلائل کا موج مارتا سمندر ہے۔آپ نے تقریبا چالیس سے زائد مختلف علوم و فنون پر خامہ فرسائی فرمائی، درجنوں کتابوں کا ترجمہ کیا اور ان پر مفید تعلیقات و حواشی کا اضافہ فرما کر اپنی تحقیقات سے مزین کیا۔اس طرح آپ نے  امتِ محمدیہ کو تقریبا چار ہزار سے زائد چھوٹی بڑی کتب و رسائل کا تحفہ پیش کیا۔ "فضل المنان فی تفسیر آیات القرآن" دس جلدوں میں عربی تفسیر، "فیوض الرحمن ترجمہ روح البیان" تیس جلدوں میں ، پچیس جلدوں میں "شرح حدائق بخشش" ، پچیس جلدوں میں "شرح مثنوی"، دس جلدوں میں "فتاوی اویسیہ" ، غایة المأمول فی علم الرسولﷺ اور رسائل اویسی آپ کی تصنیفی شہ کار ہیں۔ 

    عہدِ حاضر میں "صاحبِ تصانیفِ کثیرہ " کے لقب کے حقدار تنِ تنہا آپ ہی ہیں۔ درحقیقت آپ حافظ الحدیث امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ کے نقشِ قدم پر تھے۔اگر آپ کو "سیوطیِ وقت "کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔امام سیوطی کے متعلق مؤرخین نے لکھا ہے:

    ’’وکان فی سرعة الکتابة والتالیف آیة من آیات اللہ تعالی‘‘۔ ترجمہ: ’’سیوطی سرعت نویسی، زود قلم اور کثرتِ تالیفی میں اللّٰہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی تھے۔‘‘

آپ کے شاگرد شمس الدین داؤدی کا بیان ہے"کہ میں نے علامہ سیوطی کو دیکھا کہ وہ ایک دن میں تین کراسے تالیف کرتے اور لکھ لیتے تھے، حالانکہ وہ حدیثیں بھی املا کراتےاور پیش آمدہ سوالات کے معقول جوابات بھی دیتے تھے۔"


    علامہ اویسی رحمتہ اللہ علیہ بھی اسی طرح زود نویس تھے کہ ایک دن میں کئی رسائل اور بے شمار صفحات پر مشتمل تحقیقات لکھ لیتے ،سفر وحضر میں آپ لکھتے رہتےتھے، آپ کے متعلق مشہور ہے کہ کثرتِ کتابت کی وجہ سے آپ کی انگشتِ شہادت اور انگوٹھا گِھس گئے تھے۔حالانکہ آپ کی تدریسی و تبلیغی مصروفیات ، اصلاحی سرگرمیاں اور فتوی نویسی کی ذمہ داریاں بھی ساتھ تھیں، اللہ تعالی نے آپ کے وقت اور کام میں بڑی برکت رکھ دی تھی۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب کسی انسان کا تعلق عالمِ ارواح سے قوی ہو جاتا ہے تو اس کے وقت میں وسعت  پیدا ہو جاتی ہے کیوں کہ روح میں وسعت ہے۔ بزرگوں کی تصانیف کی تعداد کو دیکھا جائے تو یہ کسی طرح عادتاً ممکن نہیں ہوتا کہ واحد شخص اتنی عمر میں اتنی کتابیں تصنیف کر سکتا ہے، چنانچہ امام جلال الدین سیوطی نے تفسیر جلالین نصف اول صرف چالیس دن میں لکھی تھی،  علامہ ملا احمد جیون نے صرف سترہ برس کی عمر میں تفسیراتِ احمدیہ لکھی، ان حضرات کےوقت میں برکت ہوتی تھی۔


    نِرا علم بسا اوقات حجاب بن جاتا ہے، اگر علم کےساتھ عشق بھی ہو تو علم کو جِلا ملتی رہتی ہے۔مرزا بیدل نے کیا خوب کہا ہے:

با ہر کمال اند کہ آشفتگی خوش  است

ہر چند عقلِ کل شدہ ِ ، بے جنوں  مباش

"ہر کمال کے ساتھ عشق بہتر ہے، اگرچہ تو عقل ِکل ہو جا (مگر) بے جنون (عشق ) نہ ہو"


    علامہ اویسی رحمتہ اللہ علیہ کو اللہ تعالی نے  علم کے ساتھ عشق اور فقر کی لازوال دولت بھی عطا فرماٸی تھی،آپ کوئی فقیہِ سرد اور زاہدِ خشک نہیں تھے بلکہ متقدمین اسلاف کا نمونہ اور صاحبِ درد صوفی باصفا تھے آپ کے سینے میں عشقِ رسالت کی شمع فروزاں تھی، محدثِ اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد صاحب علیہ الرحمہ کی صحبت و تربیت نے آتشِ شوق کو تیز تر کیا، خواجہ محمد دین اویسی علیہ الرحمہ کے توسط سے حضرت "صاحب السیر" خواجہ محکم الدین سیرانی علیہ الرحمہ کی بارگاہ سے "اویسی عشق" ملا جس کے سوز وکیف سے آپ اویسی صفت مشاٸخ کے زمرے میں داخل ہو گئے۔ لیکن آپ کا بحرِ عشق، طلاطم خیز اور موج ریز اس وقت ہوا جب آپ مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے دستِ حق پرست پر سلسلہِ قادریہ میں بیعت ہو کر امام اہلسنت ، مجدد دین و ملت الشاہ امام  احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کے مکتبِ عشق سے منسلک ہوئے۔شاید یہی وجہ ہے قدرت آپ کو رحیم یار خان کے ایک گاؤں سےسرزمینِ "بہاولپور" پر لائی کہ یہاں امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ  کے فیضان کا چشمہ جاری ہو اور ”مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام “کی  پرسوز صداؤں سے "بہاولپور" کی فضائیں گونج اٹھیں اور یہاں کے علمی ماحول کو عشق آشنا کیا جائے۔


    آپ نے جامعہ اویسیہ رضویہ کے نام سے 1963 میں بہاولپور میں ایک عظیم دینی ادارے کی بنیادرکھی، تا دمِ وصال آپ یہیں پہ تدریس فرماتے رہے، آپ کا انداز تدریس اور طرزِ تفہیم بہت  نرالا تھا، تمام علوم و فنون کی کتب آپ پڑھاتے تھے، دورۂِ حدیث کے اسباق کے ساتھ علم المیرث بھی خود پڑھاتے تھے۔ہر سال آپ کے جامعہ میں "دورہ تفسیر القرآن "ہوتا تھا جس میں سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ ملک کے طول وعرض سے جوق در جوق شریک ہوتے تھے۔جن کے طعام و قیام کا بندوبست جامعہ کی طرف سے ہوتا تھا،اس وقت اور بھی بہت سے علما  دورہِ تفسیر کراتے تھے لیکن آپ کے دورہِ تفسیر کو حق تعالی نے بے پناہ مقبولیت عطا فرما رکھی تھی اور یہ شاید آپ  کے اخلاص کا نتیجہ تھا۔جامعہ اویسیہ سے فارغ التحصیل علما ہزاروں میں ہیں جو مختلف مراکز میں دینِ متین کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔حضرت فیض ملت علیہ الرحمہ کی مساعی جلیلہ کا نتیجہ ہے کہ "شہر بہاولپور" اور اس کے مضافات میں اہلسنت کی مساجد اور مدارس قائم ہیں، کثرت کے ساتھ محافل میلاد ہوتی ہیں اور ہر سال بارہ ربیع الاول شریف کو  فقید المثال جلوس نکالے جاتے ہیں۔ آپ کے صاحبزادگان آپ کے مشن کو جاری رکھے ہوئےہیں۔


    حضور فیض ملت علیہ الرحمہ کے مزاج میں رضوی رنگ غالب رہا، آپ بدمذہبوں کا نہ صرف علمی رد کرتے بلکہ ان سے عملا مجتنب رہتے۔جب کسی بد مذہب سے اچانک ملاقات ہوجاتی تو اس سے سلام اور مصافحہ تک نہ کرتے تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو بہت ساری صعوبتیں اٹھانی پڑیں۔ لیکن آپ  استقامت سے مخالفین کا ہر سطح پر مقابلہ کرتے رہے۔اہلسنت پر کیے گئے اعتراضات کا دندان شکن جواب دے کر مسلکِ حق کی حقانیت کو ثابت کیا اور عقیدہ سلف کا دفاع کیا۔یہ تصلب مسلکی غیرت و حمیت کی وجہ سے تھی وگرنہ آپ اپنوں کے حق میں ریشم کی طرح نرم تھے۔

ہو حلقہِ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزم ِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن


    طبیعت میں سادگی تھی لیکن آپ کی ذات  سے شخصی رعب اور علمی دبدبہ عیاں تھا ۔  شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ ایک بار جو ملاقات کر لیتا وہ بار بار زیارت کرنے کی خواہش کرتا، اکثر چہرے پرمسکراہٹ رہتی ، جس سے بھی ملتے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے، عموما عصر کے بعد یا نماز کےلیے آتے جاتے ملاقات کر لیتے کیوں کہ آپ  کے ہاں وقت کی بڑی قدر تھی،ایک لمحہ بھی لایعنی امور میں ضائع نہیں کرتے تھے۔آپ کی عام مجلس بیش بہا فوائد پر مشتمل ہوتی، حاضرین آپ کی علمی  اور حکمت پر مبنی اصلاحی گفتگو اور تفننِ طبع سے محظوظ ہوتے۔آپ نے زندگی بھر نہ خود کسی کی غیبت کی اور نہ کسی کی غیبت سننا  گوارہ کی۔علم و عمل کا یہ کوہِ ہمالہ تکلف و تصنع اور ریاکاری سے یکسر دور رہا۔ہمیشہ عاجزی و انکساری کا پیکر بنا رہا۔۔جمعہ کا خطاب دلائل سے مزین مگر عام فہم ہوتا تھا۔جب کبھی طرز اور ترنم میں تقریر کرتے تو ایک کیفیت طاری  ہوجاتی اور سامعین عش عش کر اٹھتے۔


    علامہ اویسی علیہ الرحمہ نسبتوں کا بہت لحاظ رکھتے تھے، علما و سادات و مشائخ کی حددرجہ تعظیم فرماتے۔خود فرماتے تھے "کہ لوگ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اویسی ڈاڑھی منڈے ، بے عمل صاحبزادوں اور سید زادوں کے ہاتھ چومتا ہے۔آپ فرماتے کہ" وکان ابوھما صالحا " کے پیش نظر ایسا کرتا ہوں ،انہیں پیر تو  نہیں بناتا۔“صاحبزادہ ڈاکٹرحافظ عبدالسلام ثمر فرماتے ہیں کہ بارہا  ایسا موقع آیا کہ دورانِ "دورۂ تفسیر " بچپن میں آپ کے حلقہء درس میں پہنچتا تو آپ اپنے ساتھ اپنی مسند پہ بٹھاتے اور محفل میں موجود علما سے راقم اور اس کے مشائخ چیلاواہن شریف کا تعارف کراتے بلکہ اپنی محبت کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے کہ "مجھے مشائخ چیلاواہن شریف سے اپنے استاذوں اور پیروں کی طرح محبت ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ"بھیرہ شریف کے  طالبِ علمی کے زمانے میں جب کبھی  "بہاولپور" آتا تو حضورفیضِ ملت علیہ الرحمہ کے پاس ضرور حاضری دیتا۔آپ پندو نصیحت فرماتے اور دعاؤں سے نوازتے ۔ بھیرہ شریف کے فضلاءاور اساتذہ کے لیے سلامِ محبت بھجواتے  بالخصوص جانشینِ ضیاء الامت حضرت پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب اور استاذی المکرم پروفیسر حافظ احمد بخش صاحب کا نام لے کر سلام دیتے۔

علامہ اویسی علیہ الرحمہ کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہےکہ آپ عابد  بے مثال بھی تھے،نماز باجماعت کا التزام فرماتے ، فرائض مسجد میں ادا کرتے اور نوافل اپنے حجرہ مطالعہ میں پڑھتے۔ یہاں تک کہ آخری ایام میں حالتِ علالت میں بھی کرسی پر مسجد میں لائےجاتے تھےاورباجماعت نماز ادا کرتے۔تدریس و تصنیف اور دیگر مشاغل کی کثرت کے باجود دس بارہ پارے تلاوتِ قرآن ، دلائل الخیرات شریف کی منزل، حزب البحر شریف اور  دیگر  اوراد و وظائف  روزانہ کا معمول تھا۔ رمضان المبارک میں سعادتِ عمرہ کے لیے ہر سال حرمین شریفین  کا سفر اختیار کرتے اور آخری عشرہ مسجدِ نبوی شریف  میں اعتکاف فرماتے۔آپ فرماتے تھے"کہ فقیر ایمان کی بیٹری چارج کرانے مدینہ شریف جاتا ہے۔"راقم بھی  ایک سال  وہاں گیا ہوا تھا،  قبلہ اویسی صاحب کو  وہاں ہر وقت تلاوت قرآن اورنوافل میں مشغول دیکھا۔


     آپ کی پیری مریدی کا سلسلہ بھی وسیع تھا، سلسلہ قادریہ میں بیعت کرتے تھے، حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ سے والہانہ محبت تھی ۔اس لیے ہر تعویذ کے آخر میں "شیئاً للّہ یاشیخ  عبدالقادر الجیلانی" لکھتے تھے۔آپ کی کرامات  کثیر ہیں لیکن سب سے بڑی کرامت اتباع سنت اور پیروی شریعت تھی۔خلافِ شریعت امور پر فورا ٹوک دیتے تھے۔مجھے یاد ہے جب گلزار صادق کُل پاکستان محفلِ نعت میں  شریک ہوتے تو وہاں ویڈیو کیمرہ کو اسٹیج سے ہٹوا دیتے تھے۔

خلافِ شرع اشعار پڑھنے پر نعت خوانوں کو ٹوکتے بلکہ علما و مشائخ کی موجودگی میں کلمہ حق  کہنے سے نہیں  ہچکچاتے تھے۔ایک مرتبہ ایک پیر صاحب کے عرس پر آپ مدعو تھے، اسٹیج پر موجود علما اور  پیر صاحب کے خلفا کی موجودگی میں  جب نقیب محفل نے اپنے پیر صاحب کو "قبلہ عالم " کہہ دیا تو آپ نے فورا ٹوک دیا اور فرمایا کہ "قبلہ عالم" صرف ایک ہے اور  وہ نوشہِ شہرِ مہار ، خواجہ نور محمد مہاروی غریب نواز قدس سرہ کی ذات ستودہ صفات ہے"۔ پھر جب آپ محفل کے بعد باہر جانے لگے تو انہیں  پیر صاحب کی تصاویر فروخت ہو رہی تھیں۔آپ اپنے عصائےاویسی سے تصاویر  گراتے گئے اور کہتے گئے کہ یہ کیا فسق  ہے؟اللہ  اکبر  ! ایسے ہوتے ہیں علمائے ربانیین۔


    بالآخر علم و معرفت کا یہ ابرِ مطیر  اپنا فیض برساتے برساتے  15 رمضان المبارک 2010 شبِ جمعہ کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا اور اپنے جامعہ کے احاطہ میں ابدی نیند کے ساتھ ہمیشہ کے لیے محوِ استراحت ہو گیا ۔آپ کا جنازہ بہاولپور کی تاریخ کا بہت بڑا جنازہ تھا۔  ایسی ہمہ جہت شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے میں اپنی بات اس شعر پر ختم کرتا ہوں۔


داستانِ حسن جب پھیلی تو لا محدود تھی

اور جب سمٹی تو تیرا نام ہو کر  رہ گئی




تحرير:محمد فداء المصطفیٰ گیاوی

رابطہ نمبر: 9037099731

ڈومریا ،مرشد نگر بھنگیا، گیا، بہار


تبصرے