بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو!
ہر مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ علماء اور صلحاء سے محبت رکھے ان کی محفلوں میں بیٹھتا رہے، جو کچھ نہ جانتا ہو وہ ان سے پوچھتا رہے، ان کی نصائح سے بہرہ اندوز ہوتا رہے، برے کاموں سے گریزاں رہے اور شیطان کو اپنا دشمن سمجھے جیسا کہ فرمان الہی ہے:۔ ”إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌ فَاتَّخِذُوہُ عَدُوًّا“۔ترجمہ:بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو۔(سورۃفاطر،آیت:۶،کنز الایمان)۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے اس سے دشمنی رکھو اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اس کی پیروی نہ ذکرو اور صدق دل سے ہمیشہ اپنے عقائد واعمال کا اس سے تحفظ کرو، جب تم کوئی کام کرو تو اچھی طرح سمجھ لو کیونکہ بسا اوقات اعمال میں ریا داخل ہو جاتا ہے اور برائیاں اچھی طرح نظر آتی ہیں، یہ سب شیطان کی وجہ سے ہوتا ہے لہذا اس کے خلاف اللہ سے مدد طلب کرتے رہو۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا یہ اس کا راستہ ہے، پھر آپ نے اس لکیر کے دائیں بائیں کچھ اور لکیریں کھینچیں ور فرمایا یہ شیطان کے راستے ہیں جن کے لیے وہ لوگوں کو بلاتا رہتا ہے اور آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی:”إِنَّ ہَذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمَا فا تَبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِہِ“۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے شیطان کے کثیر راستوں کو بیان فرمایا تاکہ ہم اس کے فریب میں نہ آئیں۔(رواہ بخاری)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک زاہد کو شیطان نے راہ راست سے ہٹانے کے لیے یہ چال چلی کہ ایک لڑکی کو پیٹ کی بیماری میں مبتلا کر دیا اور اس کے گھر والوں کے دلوں میں خیال ڈال دیا کہ اس بیماری کا علاج زاہد کے سوا کہیں بھی ممکن نہیں چنانچہ وہ لوگ زاہد کے پاس آئے مگر اس نے لڑکی کو اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کر دیا لیکن ان کی بار بار گزارشات پر اس کا دل پسیج گیا اور اس نے لڑکی کو علاج کے لیے اپنے پاس ٹھہرا لیا، جب بھی وہ لڑکی زاہد کے پاس جاتی شیطان اسے انتہائی خوشنما انداز میں پیش کرتا یہاں تک کہ زاہد کے قدم ڈگمگا گئے اور اس نے لڑکی سے مباشرت کی جس سے لڑکی کو حمل رہ گیا۔ اب شیطان نے اس کے دل میں وسوسہ پیدا کیا کہ یہ تو بہت بری بات ہوئی، میرے زہد و اتقاء پر حرف آگیا لہذا اسے قتل کر کے دفن کر دینا چاہیے،جب اس کے گھر والے پوچھنے کو آئیں گے تو کہہ دوں گا وہ مر گئی ہے چنانچہ شیطان کے بہکاوے میں آکر زاہد نے اس لڑکی کو قتل کر کے دفن کر دیا،ادھر لڑکی کے گھر والوں کے دلوں میں شیطان نے یہ خیال ڈال دیا کہ اسے زاہد نے قتل کر کے دفن کر دیا ہے لہذا وہ زاہد کے پاس آئے اور لڑکی کے متعلق پوچھ گچھ کی،زاہد نے کہا وہ مر گئی ہے لیکن ان لوگوں نے اپنے وسوسے کے مطابق زاہد پر سختی کی اور اس سے اقرار کرا لیا کہ اس نے لڑکی کو قتل کیا ہے انہوں نے اسے پکڑ لیا اور قصاص میں قتل کرنے لگے تب شیطان ظاہر ہوا اور زاہد سے بولا میں نے اسے پیٹ کی بیماری میں مبتلا کیا تھا اور میں نے ہی اس کے گھر والوں کے دلوں میں تیرے جرم کا خیال ڈالا تھا، اب تو میرا کہنا مان لے میں تجھے بچا لوں گا۔ زاہد نے پوچھا کیا کروں؟ شیطان بولا مجھے دو سجدے کر لے چنانچہ زاہد نے جان بچانے کے لیے شیطان کو سجدہ کر لیا اب شیطان یہ کہتا ہوا وہاں سے چل دیا کہ میں تیرے اس فعل سے بری ہوں جیسا کہ فرمان الہی ہے کہ:”إذ قال للإنسان أکفر فلما کفر قال إنی برئ منک“۔ ترجمہ: شیطان کی طرح جس نے انسان سے کہا کفر کر جب اس نے کفر کیا تو شیطان نے کہا میں تجھ سے بری ہوں۔
ایک مرتبہ کی بات ہے کہ شیطان نے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا تیرا اس ذات کے متعلق کیا خیال ہے جس نے مجھے جیسے چاہا پیدا کیا اور جو چاہا مجھ سے کرایا،اس کے بعد وہ مجھے چاہے تو جنت میں بھیج دے اور چاہے تو جہنم میں بھیج دے،کیا ایسا کرنے والا عادل ہے یا ظالم؟ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ توقف کے بعد جواب دیا اے شخص! اگر اس نے تجھے تیری منشا کے مطابق پیدا کیا تو واقعی تو مظلوم ہے اور اگر اس نے تجھے اپنے ارادۂ قدرت کے تحت پیدا کیا تو پھر اس کی مرضی ہے جو کرے،شیطان شرم سے پانی پانی ہو گیا اور کہنے لگا یہ سوال کر کے میں نے ستر ہزار عابدوں کو ضلالت و گمراہی کے غار میں دھکیل دیا ہے۔
انسانی قلب ایک قلعہ ہے: انسانی قلب کی مثال ا یک قلعہ جیسی ہے اور شیطان ایک دشمن ہے جو قلعہ پرحملہ کر کے اس پر قبضہ جمانا چاہتا ہے۔ قلعہ کی حفاظت دروازوں کو بند کئے بغیر او رتمام راستوں اور درختوں کی نگرانی کے بغیر ممکن ہے اور یہ فریضہ وہی سرانجام دے سکتا ہے جو ان راستوں سے اچھی طرح واقف ہو لہذا دل کو شیطانی وساوس کی بیغانہ سے محفوظ رکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہی نہیں بلکہ ایک فرض عین ہے چونکہ شیطان کے وسوسوں کا مقابلہ اس وقت تک نا ممکن ہے، جب تک اس کی تمام گزرگاہ ہو سے واقفیت نہ ہو لہذا ان گزر گاہوں سے واقفیت اولین ضرورت ہے اور یہ گزرگاہیں انسان ہی کی پیدا کردہ ہوتی ہیں جیسے غصہ اور شہوت کیونکہ غصہ عقل کو ختم کر دیتا ہے لہذا جب عقل ماند پڑ جاتی ہے تو شیطانی لشکر انسان پر زبر دست حملہ کر دیتا ہے، جونہی انسان غضبنا ک ہوتا ہے، شیطان اس سے ایسے کھیلتا ہے جسے بچے مٹی سے کھیلتے ہے۔
ایک بندۂ خدا نے شیطان سے پوچھا یہ بتا تو انسان پرکیسے قابو پالیتا ہے؟ شیطان نے کہا میں اسے غصہ اور اس کی شہوت کے وقت زیر کرتا ہوں۔ شیطان کے راستوں میں ایک راستہ حرص اور حسد کا بھی ہے کیونکہ حرص انسان کو اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے لہذا شیطان اس فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے تمام برائیوں کو حرص کے سامنے حسین انداز میں پیش کرتا ہے اور وہ انسان اسے خوبیاں سمجھ کر قبول کرتا چل جاتا ہے۔
روایت ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام بحکم خداوندی پہلے ہر جنس کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کیا اور خود بھی سوار ہوئے تو آپ نے ایک اجنبی بوڑھے کو دیکھ کر پوچھا تمہیں کس نے کشتی میں سوار کیا ہے؟ اس نے کہا میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ کے ساتھیوں کے دلوں پر قبضہ کرلوں، اس وقت ان کے دل میرے ساتھ اور بدن آپ کے ساتھ ہوں گے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا اے اللہ کے دشمن! اے ملعون! نکل جا! ابلیس بولا اے نوح!پانچ چیز ایسی ہیں جن سے میں لوگوں کو گمراہی میں ڈالتا ہوں، تین تمہیں بتلاؤں گا اور دو نہیں بتلاؤں گا۔ اللہ تعالے نے حضرت نوح علیہ السلام کی طرف وحی کی اور فرمایا کہ، آپ کہیں کہ مجھے تین سے آگاہی کی ضرورت نہیں تو مجھے صرف وہی دو بتلا د ہے۔ شیطان بولا وہ دو ایسی ہیں جو مجھے کبھی جھوٹا نہیں کرتیں اور نہ ہی کبھی ناکام لوٹاتی ہیں اور انہیں سے میں لوگوں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرتا ہوں۔ ان میں سے ایک حسد ہے اور دوسری حرص ہے، اسی حسد کی وجہ سے تو میں راند ۂ درگاہ اور ملعون ہوا ہوں اور حرص کے باعث آدم علیہ السلام کو ممنوعہ چیز کی خواہش پیدا ہوئی اور میری آرزو پوری ہوگئی۔
شیطان کا ایک راستہ انسان کا پیٹ بھرا ہونا ہے اگر چہ وہ رزق حلال سے ہی بھرا گیا ہو کیونکہ پیٹ کا بھر جانا شہوتوں برانگیختہ کرتا ہے اور شیطان کا یہی ہتھیار ہے۔پیٹ بھر کا کھانا بھی انسان کو شیطان کے پھندے میں پھنساتا ہے۔ رویت ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے ایک مرتبہ شیطان کو دیکھا وہ بہت سے پھندے اٹھائے ہوئے تھا آپ نے پوچھا یہ کیا ہیں؟ شیطان نے جواب دیا یہ وہ پھندے ہیں جن سے میں انسان کو پھانستا ہوں۔ آپ نے پوچھا کبھی مجھ پر بھی تونے پھندا ڈالا ہے؟ شیطان نے کہا، آپ جب بھی سیر ہو کر کھا لیتے ہیں میں آپ کو ذکر ونماز سے سست کر دیتا ہوں۔ آپ نے پوچھا اور کچھ؟ کہا بس اتنا ہی تب آپ نے قسم کھائی کہ میں آئندہ کبھی سیر ہوکر نہیں کھاؤں گا، شیطان نے بھی جوا با قسم کھائی، میں بھی آئندہ کسی مسلمان کو نصیحت نہیں کروں گا۔
شیطان کا ایک راستہ مال و متاع دنیا پر فریفتگی ہے کیونکہ شیطان جب انسان کا دل ان چیزوں کی طرف مائل دیکھتا ہے تو انہیں اور زیادہ حسین انداز میں اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور انسان کو ہمیشہ مکانات کی تعمیر سقف و در و بام کی آرائش و زیبائش میں الجھائے رکھنا ہے اور اسے خوبصورت لباس اچھی اچھی سواریوں اور طویل عمر کی جھوٹی امیدوں میں مبتلا کر دیتا ہے اور جب کوئی انسان اس منزل پر پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کی راہ خدا پر واپسی دشوار اور پھر مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ وہ ایک امید کے بعد دوسری امید بڑھاتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا وقت مقرر آ جاتا ہے اور وہ اسی شیطانی راستے پر گامزن رہتے اور خواہشات کی تکمیل کرتے ہوئے اس نا پائیدار دنیا سے اٹھ جاتا ہے (نعوذ باللہ)
شیطان کے بال کے ایک راستہ لوگوں سے امیدیں رکھنا ہے، حضرت صفوان بن سلیم فرماتے ہیں کہ شیطان جناب عبداللہ بن حنظلہ کے سامنے آیا اور کہنے لگا کہ میں تم کو ایک بات بتاتا ہوں، اسے یاد رکھنا انہوں نے کہا مجھے تیری کسی پند و نصیحت کی ضرورت نہیں ہے، شیطان نے کہا تم سنو تو سہی اگر اچھی بات ہو تو یا د رکھا ورنہ چھوڑ دنیا، بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کسی انسان سے اپنی آرزوؤں کا سوال نہ کرنا اور یہ دیکھنا کہ غصہ میں تمہاری کیا حالت ہوتی ہے کیونکہ میں غصہ کی حالت میں ہی انسان پر قابو پاتا ہوں۔
شیطان کا ایک راستہ ثابت قدمی کا انسان میں فقدان اور جلد بازی کی طرف اس کا میلان ہے۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:”جلد بازی شیطانی فعل ہے اور عمل وبردباری اللہ رب العزت کا عطیہ ہے۔ جلد بازی میں انسان کو شیطان ایسے طریقے سے برائی پر مائل کرتا ہے کہ انسان محسوس ہی نہیں کرتا“۔ روایت ہے کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو شیطان کے تمام شاگرد اس کے یہاں جمع ہوئے اور کہنے لگے آج تمام بت سرنگوں ہوگئے ہیں شیطان نے کہا کہ کوئی عظیم حادثہ رونا ہواہے, تم یہیں ٹھرو میں معلوم کرتا ہوں چنانچہ اس نے مشرق و مغرب کا چکر لگایامگر کچھ بھی پتا نہ چلا یہاں تک کہ وہ حضرت عیسی علیہ سلام کی جائے ولادت پر پہنچا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ملائکہ حضرت حضرت عیسی السلام کو گھرے ہوئے ہیں، وہ واپس اپنے شاگردوں کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ گذشتہ شب ایک نبی کی ولادت ہوئی ہے، میں ہر بچہ کی ولادت کے وقت موجود ہوتا ہوں مگرمجھے ان کی پیدائش کا قطعی علم نہیں ہوا لہذ اس رات کے بعد بتوں کی عبادت ختم ہو جائیگی اس لئے اب انسان پر جلد بازی اور لا پروائی کے وقت حملہ کر و اوران ہتیاروں سے کام لو۔
ایک راستہ زر اور زمین کا ہے کیونکہ جو چیز انسان کی حاجت سے زائد ہو وہ شیطان کا مسکن بن جاتی ہے۔ حضرت ثابت البنانی رضی اللہ عنہ کاقول ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو شیطان نے اپنے شاگردوں سے کہا آج کوئی اہم واقعہ رونماہوا ہے جاؤ دیکھو تو کیا ماجرا ہے؟ وہ سب تلاش میں نکلے مگر ناکام لوٹ کر کہنے لگے ہمیں توکچھ بھی معلوم نہ ہو سکا۔ شیطان نے کہاتم ٹھہرو میں ابھی تمہیں آکر بتاتا ہوں،شیطان نے واپس آکربتلایا کہ اللہ تعالی نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایاہے۔ چنا نچہ شیطان نے اپنے تمام شاگروں چیلوں کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پیچھے لگایا کہ ان لوگوں کو گراہ کریں مگرواپس جا کر کہتے ہیں اے استاذ! ا ہم نے آج تک ایسی ناکامی کا منہ نہیں دیکھا، جب یہ نماز شروع کرتے ہیں تو ہمارا سب کیا دھرا خاک میں مل جاتا ہے۔ تب شیطان نے کہا گھبراؤ نہیں ابھی کچھ اور انتظار کر وہ عنقریب ان پر دنیا ارزاں و فراواں ہو جائے گی اور اس وقت ہمیں اپنی امیدیں پورا کر نے کا خوب موقع مل جائیگا۔
روایت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک دن پتھر سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، شیطان کا وہاں سے گزر ہوا، اس نے کہا اے عیسٰی(علیہ السلام) تم نے دنیاکو مرغوب سمجھا ہے؟ عیسٰی علیہ السلام نے اسے پکڑ لیا اور اس کی گدی میں مکّارسید کر کے فرمایا یہ لے جا، یہ تیرے لئے دنیا ہے۔
ایک ریاست فقرو فاقہ کا ڈر اور بخیلی ہے کیونکہ یہ چیزیں انسان کو راہ خدا میں خرچ کرنے سے روکتی ہیں اور اسے مال و دولت جمع کرنے اور عذاب الیم کی دعوت دیتی ہیں۔ بخیلی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بخیل مال و دولت حاصل کرنے کے لئے بازاروں کے چکر لگاتا ہے جوکہ شیطان کی آماجگاہیں ہیں شیطان اپنی جگہوں پر گھات لگائے بیٹا ہوا ہوتا ہے۔
ایک راستہ مذہب سے نفرت، خواہشات کی پیروی، اپنے مخالفین سے بعض وحسد اور انہیں حقارت سے دیکھنا ہے اور یہ پھر خواہ وہ عابد ہو یا فاسق سب کو ہلاک کر دیتی ہے۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ شیطان نے کہا میں نے امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوگناہوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکایا مگرانہوں نے استغفار سے مجھے شکست دے دی، تب میں انہیں ایسے گناہوں کی طرف لے گیا جن کے لئے وہ کھلی استغفار نہیں کرتے ہیں اور وہ ان کی ناجائز خواہشات ہیں اور ملعون کی یہ بات حقیقتاً صداقت پر مبنی ہے کیوں کہ عام طور پر لوگ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ یہ خواہشات ہی اصل میں گناہوں کی طرف راغب کرتی ہیں لہذا وہ اللہ سے استغفار کریں۔
ایک راستہ مسلمانوں کے بارے میں بدگمانی کا ہے لہذا اس سے اور بد بختوں کی تہمتوں سے بچنا چاہئے، اگر آپ کبھی کسی ایسے انسان کو دیکھیں جو لوگوں کے عیب ڈھونڈتا ہے اور بدگمانیاں پھیلاتا ہے تو سمجھ لیجئے کہ وہ شخص خود ہی بد باطن ہے اور یہ امر اس کی بد باطنی کے اظہار کا ایک طریقہ ہے لہذا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ شیطان کے داخلے کے ان تمام راستوں کو مسدود کر دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اپنے دل کو ایک محفوظ قلعہ بنالے۔
اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہم سب کو شیطان کے شر محفوظ رکھے اوراس کے غلیظ وسوسوں سے بچائے۔ اے رب ذوالجلال ہمیں ہر وہ کام کرنے کی توقیق عطافرما جس میں تیری رضا شامل ہو او رہمیں ہر وہ کام کرنے سے دور رکھ جو تیری ناراضگی کا باعث بنے اور ہمیں دارین کی سعادتوں سے مالا مال کر آمین بجاہ سید المرسلین۔
محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ
رابطہ نمبر: 9037099731
ڈومریا ،مرشد نگر بھنگیا، گیا، بہار
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں