اللہ رب العزت کی رِضَا ہی حقیقی اور اصل عید ہے۔

 

اللہ رب العزت کی رِضَا ہی حقیقی اور اصل عید ہے۔

    آج عید کا دن ہے، اللہ تعالی نے اپنے فضل وکرم اور اپنے پیارے حبیب ہمارے طبیب مصطفی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ طفیل رمضان شریف جیسا رحمت و مغفرت اور جہنم سے آزادی والا مہینہ امت محبوب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ سلم کو عطا فر مایا۔ جس مسلمان نے اپنے رب تعالٰی کے لئے رمضان شریف کے روزے رکھے، اپنے آقا صلی اللہ تعالی علیہ کی سنت جان کر نیند کو قربان کر کے سحری کیا اور روزہ رکھا، اور فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اور تمام نمازوں کو بجماعت ادا کرتارہا اور افطار کے وقت دعاء میں مشغول رہا پھر افطار کیا اور مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کیا اور عشاء اور تراویح کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرتارہا تو جن خوش نصیب مسلمانوں نے ادب و احترام کے ساتھ رمضان شریف کا مہینہ مکمل کیا تو اللہ تعالٰی ان سے راضی ہو گیا اور عید سعید کا انعام ان کو عطا فرمایا۔ اور ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ عید کا دن یوم الجائزہ ہے یعنی جزا پانے کا دن ہے۔اور اس دن میں جو دعائیں مانگی جائے اللہ اسے رد نہیں فرماتا ہے بلکہ اپنی بارگاہ شرفیت میں قبول فرما لیتا ہے۔ 

    اسی لئے ہمارے سرکار امت کے غمخوار مصطفیٰ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے عید کی رات کو لیلۃ الجائزہ فرمایا ہے یعنی عید کی رات انعام واکرام  کی رات ہے اور عید کا دن مغفرت و بخشش پانے کا دن ہے جیسا کہ 'الترغیب والترہیب' میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے ایک طویل حدیث روایت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے حضور سراپائے نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی آج کے روز یعنی عید کے دن عام اعلان فرماتا ہے اے میرے بندوں! جو سوال کرنا ہے کرو؟ میں اس کو پورا کروں گا، میری عزت و جلال کی قسم آج یعنی عید کے دن اپنی آخرت کے بارے میں جو مجھ سے سوال کرو گے میں پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کی بھلائی مانگو گے میں تم کو دوں گا۔ میری عزت کی قسم جب تک تم میرے حکم پر عمل کرتے رہو گے میں تمہاری خطاؤں اور لغزشوں پر پردہ ڈالتا رہوں گا ۔ اور میری عزت و جلال کی قسم ! میں تمہیں ظالموں کے ساتھ رسوا نہ کروں گا اور تم اس حال میں نماز عید سے فارغ ہو کر ے اپنے گھروں کی طرف لوٹ کر آؤ گے کہ مغفرت و بخشش پا چکے ہو گے اور تم نے اللہ تعالیٰ کو راضی کیا اور اللہ تعالی تم سے راضی ہو گیا۔ (غنیۃ الطالبین،ص: 372)۔ 

    عید کا دن کس کے لئے: اس حدیث مبارکہ سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جس مسلمان بندہ سے راضی ہو گیا ہے اس خوش نصیب مسلمان کے لئے آج کا دن عید کا دن ہے اگر ہم نے اپنے ظاہر کو صاف کر لیا اور باطن گندہ ہے اگر ہم نے غسل کر کے جسم کو پاک کر لیا ہے اور قلب میں بغض وحسد،غیبت، تہمت، بھائی سے بھائی کی نفرت، ماں باپ کی نافرمانی کی نحوست، نماز وروزہ، حج وزکوٰۃ ادانہ کرنے کی معصیت،حرام روزی حاصل کرنا اور جھوٹ بولنے کی لعنت اورتکبر و کھمنڈ جیسے شیطانی عادت موجود ہیں تو یقینا ہماری روح بھی گندی ہے اور ہمارے دل بھی ناپاک ہیں۔ تو سوچو اور غور کرو کہ چمکدار کپڑے پہنے سے کیا حاصل ہوگا جب تک ہمارے دل چمکدار اور صاف شفاف نہ ہو جائیں۔ 

    افسوس صد افسوس آج کے مسلمانوں کی تمام توجہ جسم و کپڑے اور مکان پر ہے کہ آج عید کا دن ہے سب صاف  تھرے اور چمک،دمک والے ہونا چاہتے یعنی ہماری نظر صرف ظاہر پر ہے جس کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالی باطن یعنی روح و قلب کی پاکیزگی کو دیکھتا ہے اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس کی قدر و قیمت ہے۔ کاش ہم مسلمان اپنے باطن کی طرف نظر کر لیں یعنی روح و قلب کو پاکیزہ اور صاف ستھرا بنانے کی فکر کر لیں۔  اللہ تعالى کا فرمان : قد أَفْلَحَ مَن تَزَكَّى وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّی (پ:30)۔ ترجمہ: بیشک مراد کو پہو نچا جو تھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔ (کنزالایمان)۔ 

    یعنی وہ مسلمان کامیاب ہے جس نے تزکیہ نفس کیا یعنی اپنے دل کو پاکیزہ کیا اوراللہ تعالی کا ذکر کیا اور نمازیں پڑھیں گو یا رب تعالی کی جانب سے مسلمانوں کو کامیابی کا راز سمجھایا جارہا ہے کہ وہی لوگ کامیاب ہیں جنہوں نے اپنے دل کو پاک وصاف کیا اور دل کی پاکی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے اور پانچ وقت کی نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کیا جائے۔

     نماز وہ مقبول عبادت ہے جس کے بغیر قلب کی پاکی حاصل ہی نہیں ہوسکتی۔ جس مسلمان کا قلب تمام معصیتوں اور گناہوں کے دھبوں سے پاک وصاف ہو گیا وہی دل زندہ و تندرست ہو کر سیدھا کہلاتا ہے اور جس کا دل سیدھا ہے اس کے جسم کے تمام اعضاء سیدھے رہیں گے۔ جسم کا کوئی حصہ حرام و گناہ کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ اس لئے کہ دل سیدھا ہے اور اگر جسم کے اعضاء سے گناہ سرزد ہونے لگیں یعنی آنکھ، کان، ناک زبان، ہاتھ ، پاؤں گناہ و حرام کا ارتکاب کر رہے ہوں تو گویا دل ٹیڑھا ہو گیا ہے اس لئے دل کو سیدھا رکھنے کی احادیث طیبہ میں سخت تاکیدیں وارد ہوئی ہیں۔ دل کے بگاڑ اور اس کے ٹیڑھے پن کے علاج کے لئے کثرت سے تو بہ واستغفار کرنا چاہنے اور اپنے رب تعالیٰ کے ذکر اور ہمارے پیارے نبی معراج کے دولہا مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ تعال علیہ وآلہ سلم کی محبت و عشق میں ڈوب کر پانچوں وقت کی نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کرنے سے دل پاک وصاف اور زندہ ہو کر سیدھا اور درست ہو جائے گا۔ بہر حال میرے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ صرف ظاہری جسم کو بنا اور سنوار لینے اور آج عید کے دن چمکدار کپڑے پہن لینے سے اللہ تعالی سے مسرت و شادمانی کی نعمت و دولت اور عید کی عیدی یعنی انعام واکرام نصیب نہیں ہوگا ۔ لہذا ہم پر لازم ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرتے رہیں اور رمضان شریف میں جو ہماری عبادت تھی کہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھتے تھے۔ خوب تلاوت قرآن مجید کرتے تھے۔ کثرت سے کلمہ دورود شریف اور رو رو کر دعاء مانگتے تھے یہ ہماری عادتیں باقی رہیں تو یقینا اللہ تعالی تمام سال کے تمام دنوں کو ہمارے لئے عید کا دن بنا دے گا اور للہ تعالیٰ راضی ہے تو ہر دن عید کا دن ہے ۔

    ایک دفعہ سر چشمئہ ولایت  خیر و برکت امیرالمومنین حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ عید کے دن جو کی بھوسی کی بنی ہوئی روٹی تناول فرمار ہے تھے ۔ ایک شخص آیا اور اس نے حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا کہ آج تو عید کا دن ہے اور آپ جو کی بھوسی کی روٹی کھارہے ہیں؟ میرے آقا ابوالحسن والحسین حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ آج عید کا دن اس بندہ مومن کے لئے ہے جس کا روز ہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو گیا ہو اور اس شخص کے گناہ بخش دیئے گئے ہوں۔ آج کا دن بھی ہمارے لئے عید کا دن ہے اور ہر وہ دن ہمارے لئے عید کا دن ہے جس دن ہم کوئی کام گناہ کا نہ کریں۔ (غنیۃ الطالبین ص:377) ۔

    میرے آقا حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ نے ہم غلاموں کو بتا دیا کہ جس دن کوئی گناہ کا کام نہ ہو بلکہ وہ کام ہو جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے راضی اور خوش ہو جائے تو وہ دن بندہ مومن کے لئے عید کا دن ہے۔

    ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عید: امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے عید کے دن اپنے بیٹے کو پرانی قمیص پہنے دیکھا تو رو پڑے، بیٹے نے عرض کیا۔ اباجان! آپ کس لئے روتے ہیں؟ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا میرے بیٹے مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے تجھے اس پھٹے پرانے لباس میں دیکھیں گے تو تیرا دل ٹوٹ جائے گا۔ بیٹے نے جواب دیا دل تو اس کا ٹوٹے جو رضائے الہی کو نہ پاسکا یا جس نے ماں باپ کی نافرمانی کی ہو اور مجھے امید ہے کہ آپ کی رضامندی کے طفیل اللہ تعالٰی بھی مجھ سے راضی ہوگا ۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ رو پڑے، بیٹے کو گلے لگایا اور اس کے لئے دعا کی۔ (مکاشفۃ القلوب ص:71)۔ 

     اس نورانی واقعہ سے سبق ملتا ہے کہ نئے اور چمک دمک والے کپڑوں سے حقیقی عید نصیب نہیں ہوتی ہے بلکہ ماں باپ کی رضا مندی اور اللہ تعالی کی خوشنودی سے بندہ مومن کے لئے عید کے دن عید ہوتی ہے اور نہ وعید ہوتی ہے۔

    اللہ تعالیٰ کی رضا حقیقی عید ہے: بلند پایہ بزرگ بڑے نیک و پرہیز گار، مسلمانوں کے بادشاہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیٹیاں عید سے ایک دن قبل آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کرنے لگیں ابا جان ! کل عید کا دن ہے ہم کون سے کپڑے پہنیں گے ؟ آپ نے فرمایا یہی کپڑے جو تم نے پہن رکھے ہیں۔ انہیں دھو کر آج صاف کر لو اور کل عید کے دن پہن لینا۔ بیٹیاں مچل گئیں اور ضد کرتے ہوئے کہا نہیں آپ ہمارے لئے نئے کپڑے بنوادیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا میری بیٹیوں عید کا دن اللہ تعالی کی عبادت و بندگی کرنے اور اس کا شکر ادا کرنے کا دن ہے۔ نئے کپڑے پہنا ضروری تو نہیں۔ بیٹیوں نے عرض کیا کہ آپ کی بات صحیح و درست ہے لیکن ہماری سہیلیاں اور دوسری لڑکیاں ہمیں طعنہ دیں گی کہ تم بادشاہ کی بیٹیاں اور امیر المومنین کی لڑکیاں ہو اور اس پرانے کپڑے سے عید منارہی ہو۔ یہ کہتے ہوئے بیٹیوں کی آنکھوں میں آنسوں بھر آئے ۔ بیٹیوں کی باتیں سن کر امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ کا دل بھی بھر آیا اور آنکھیں چھلک پڑیں ۔ آپ نے خازن کو بلا کر فرمایا مجھے میری ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی دیدو۔ خازن بڑے نیک اور پر ہیز گار تھے عرض کیا۔ حضور! کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ایک ماہ تک زندہ رہیں گے؟ امیر المومنین نے فرمایا۔ جزاک اللہ تعالیٰ یعنی اللہ تعالیٰ تجھے جزا دے تو نے بہت عمدہ اور صحیح بات کہی ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بیٹیوں سے فرمایا، میری پیاری بیٹیوں اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی الله تعالی علیہ وآلہ وسلم کی رضا و خوشی پر اپنی آرزو اور خوشی کو قربان کر دو۔ کوئی شخص اس وقت تک جنت کا حقدار نہیں بن سکتا جب تک وہ شخص کچھ قربانی نہ دے۔

     جو واقعہ آپ حضرات نے پڑھا اس میں ہمارے لئے بے شمار ہدایتوں کے چراغ روشن ہیں جس سے ہم کو عبرت و نصیحت بھی ملتی ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیر المومنین اور مسلمانوں کے بادشاہ تھے جو چاہتے خرچ کر سکتے تھے مگر ایسا نہیں کیا اس لئے کہ ان کے دل میں خوف خدائے تعالی تھا اور وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے کہ ایک دن ہم کو بھی مرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو کر ذرے ذرے کا اور ایک ایک پیسے کا حساب دینا ہے لیکن آج کے مسلمانوں کا حال اس کے برعکس ہے۔ مسجد کا معالمہ ہو یا مدرسے کا یا کوئی اور امانت ہو۔ امانت بہر حال امانت ہے۔ شریعت مطہرہ نے جہاں خرچ کرنے کی اجازت دی ہے صرف وہیں خرچ کئے جائیں گے ورنہ حرام وناجائز ہوگا۔ ایک دن مرنا ہے اور اپنے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو کر ذرے ذرے اور ہر امانت کا حساب دینا ہے۔ 

    اے لوگو! سوچ لو! اور آج ہی فیصلہ کر لو ورنہ کل شرمندہ ہو گے اور پچھتاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے امان میں رکھے اور حلال روزی عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔


تحرير:محمد فداء المصطفیٰ گیاوی

رابطہ نمبر: 9037099731

ڈومریا ،مرشد نگر بھنگیا، گیا، بہار

 

تبصرے