حجت الاسلام علامہ مفتی محمد حامد رضا خان قادری برکاتی علیہ الرحمہ: حیات وخدمات/Hujjatul Islam Allama Mufti Mohammed Hamid Raza Khan Qadri Barkati: Hayato Khidmat
(17 جمادی الاولی: عرسِ حجت الاسلام حامد رضا خان علیہ الرحمہ)
حجت الاسلام علامہ مفتی محمد حامد رضا خان قادری برکاتی علیہ الرحمہ: حیات وخدمات
انا من حامدؔو حامد رضاؔ منّی کے جلووں سے
بحمد اللہ رضا حامد ہیں اور حامد رضاؔ تم ہو
حسینوں میں تمہیں تم ہو نبیوں میں تمہیں تم ہو
کہ محبوبِ خدا تم ہو نبی الانبیاء تم ہو
چودھویں صدی کے مجد،د مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمدرضا فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز کے فرزند اکبر ماہ ربیع الاول1292ھ بمطابق 1875ء محلہ سوداگران بریلی شریف میں تولد ہوئے۔ محمد نام پر عقیقہ ہوا عرف حامد رضا رکھا گیا اس طرح پورا نام محمد حامد رضا ہوا، لفظ محمد کے اعداد29 ہیں اور اس لحاظ سے عقیقہ کا یہ نام حجتہ الاسلام کا تاریخی نام بھی بن جاتا ہے اسلئے کہ1292ھ آپ کی سن ولادت بھی ہے۔ حجتہ الاسلام آپ کا خطاب ہے۔ شیخ الا نام اور جمال الاولیاء کے القاب سے بھی آپ کو یاد کیا گیا۔اور آپ نے تمام تر علومِ عقلیہ و نقلیہ اپنے والدِ محترم سرکارِ اعلی حضرت سے حاصل کی۔ اسی طرح دیگر علمائے کرام اور مشائخ عظام سے بھی آپ نے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔
بیعت و خلافت: - حضور حجۃ الاسلام کو بیعت و خلافت کا شرف نور العارفین حضرت سیدنا ابو الحسین احمد نوری نور اللہ مرقدہ سے حاصل ہے۔ حضور اعلیٰ حضرت نے بھی جمیع سلاسل جس قدر خودان کو اجازت تھی، اجازت فرمائی اور تمام علوم وفنون، اور ادو اعمال اور اذکار و اشغال کا مجاز و ماذون کیا۔(فتاوی حامدیہ، ص:49)۔
اولا دوامجاد: -حضور حجتہ الاسلام کے دو صاحبزادے مفسر اعظم ہند حضرت علامہ محمد ابراہیم رضا خاں قادری بریلوی عرف جیلانی میاں خلف اکبر، حضرت علامہ جماد رضا خاں قادری بریلوی عرف نعمانی منیاں خلف اصغر اور چار صاحبزادیاں تھیں۔ حجۃ الاسلام کے بڑے صاحبزادے جیلانی میاں قدس سرہ العزیز کے صاحبزادگان بریلی شریف میں ہیں آپ کی تیسری اولاد اور پہلے فرزند مفکر اسلام حضرت علامہ محمد ریحان رضا خاں قادری بریلوی علیہ الرحمہ ہیں۔ تعلیمی، تبلیغی، سیاسی اور سماجی میدان میں ان کی خدمات نمایاں ہیں۔ حضور مفسر اعظم کی چھٹی اولا د تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری از ہری بریلوی دام ظلہ العالی اس وقت دنیائے سنیت میں اپنے علم و فضل، زہدو تقومی اور دینی و تبلیغی خدمات میں نمایاں شان کے حامل تھے۔پچاس یا پچپن ہی سال کی عمر میں آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی جو آج بھی ہند و پاک، نیپال و بنگلہ دیش سری لنکا اور ہالینڈ وانگلینڈ، امریکہ وافریقہ اور عرب ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں، تاج الشریعہ حضور مفتی اعظم کے حقیقی جانشین تھے۔(فتاوی حامدیہ، ص:78)۔
درس و تدریس: - حضرت حجتہ الاسلام نے جملہ علوم وفنون اپنے والد گرامی سے حاصل کئے، درس کے وقت آپ کے بعض سوالات حضور اعلیٰ حضرت کو ایسے پسند آتے کہ”قال الولد الاعز“ لکھ کر سوال اور جواب قلمبند فرما دیتے۔ مدینہ طیبہ کے جید عالم حضرت علامہ عبد القادری طرابلسی شامی سے حجۃ الاسلام کا جو مکالمہ ہوا اس کا تذکرہ اعلیٰ حضرت نے ملفوظات میں خود فرمایا۔(فتاوی حامدیہ، ص:48)۔
1323هجري میں حضور اعلیٰ حضرت کے دوسرے اور تاریخی حج و زیارت کے موقع پر جب آپ پہلی باران کے ہمراہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو مکہ مکرمہ میں شیخ العلی حضرت علامہ محمد سعید بالبصیل اور مدینہ طیبہ میں حضرت علامہ سید احمد برزنجی کے حلقہ درس میں شریک ہوئے، اکابر علماء نے انہیں سندیں عطا کیں حضرت علامہ خلیل خربوطی نے سند فقہ حنفی عطا فرمائی جو علامہ سید طحطاوی سے انہیں صرف دو واسطوں سے حاصل تھی۔ حجۃ الاسلام علیہ الرحمہ کے تلامذہ کو خود سیدنا اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے سندات عطا فرمائیں۔ دار العلوم منظر اسلام بریلی شریف کے درجہ اعلیٰ میں صدر المدرسین اور شیخ الحدیث کی جگہ پر بھی آپ نے کام کیا، آپ تفسیر بیضاوی شریف کے درس میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
مریدین، خلفا اور تلاندہ: - حجتہ الاسلام کے مریدین کی تعداد یوں تو لاکھوں میں تھی لیکن اب بھی ہزاروں کی تعداد میں ان کے مریدین موجود ہیں، چتوڑ گڑھ، جے پور، او دئے پور، جودھپور، سلطان پور، بریلی و اطراف، کانپور، فتح پور، بنارس اور صوبہ بہار وغیرہ میں ان کے مریدین زیادہ ہیں، کراچی اور پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی آپ کے مریدین پائے جاتے ہیں۔
آپ کے خلفا ء و تلاندہ میں مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مفتی مصطفی رضا خاں قادری بریلوی، مفسر اعظم ہند حضرت علامہ محمد ابراہیم رضا خاں قادری بریلوی، حضرت علامہ محمد حماد رضا خاں قادری بریلوی، محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ محمد سردار احمد گرداسپوری ثم لائل پوری، حضرت علامہ مفتی محمد تقدس علی خاں قادری بریلوی، حضرت علامہ محمد عنایت محمد خاں غوری، حضرت علامہ محمد عبد الغفور ہزاروی، حضرت علامہ محمد سعید شبلی فرید کوٹی، حضرت علامہ احسان علی صاحب فیض پوری سابق شیخ الحدیث دار العلوم منظر اسلام، حضرت علامہ ولی الرحمن پوکھر یروی، حضرت علامہ حافظ محمد میاں اشرفی، حضرت علامہ ابو الخلیل انیس عالم صاحب بہاری، حضرت علامہ قاضی فضل کریم صاحب بہاری حضرت علامہ رضی احمد صاحب وغیرہ سر فہرست ہیں۔
پاکستان کے مشہور شاعر حسان العصر جناب اختر الحامدی بھی حضور حجت الاسلام ہی سے شرف بیعت وارادت رکھتے ہیں، حضور حجتہ الاسلام اپنے تلامذہ اور خلفاء میں سب سے زیادہ محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ سردار احمد گرداسپوری سے محبت فرماتے تھے۔ حضرت علامہ سردار احمد صاحب جو میٹرک کر چکے تھے اور پٹواری کی ملازمت بھی اختیار کر لی تھی انھوں نے جب مناظرہ لاہور کے موقع پر حجۃ الاسلام کے چہرہ زیبا کو دیکھا تو ان پر فریفتہ ہو گئے آپ ہر روز ان کے رخ انور کی زیارت کو جلسہ گاہ میں حاظر ہو جاتے اور یک لخت حضور حجت الاسلام ہی کو دیکھتے رہتے۔
حضور حجۃ الاسلام کے استفسار پر انھوں نے ان کے ساتھ بریلی شریف چلنے کی تمنا ظاہر کی حجتہ الاسلام بکمال شفقت اپنے ہمراہ بریلی شریف لائے اور برسوں اپنی صحبت و خدمت میں رکھ کر ایسی و تعلیم و تربیت فرمائی کہ آپ ایک معمولی پٹواری سے محدث اعظم بن کر افق عالم پر چھا گئے۔ محدث اعظم پاکستان نے دار العلوم منظر اسلام اور دار العلوم مظہر اسلام میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں تقسیم ہند کے بعد آپ پاکستان تشریف لے گئے اور لائل پورمیں ایک مدرسہ بنام مظہر اسلام قائم فرمایا اور تادم آخری وہیں دین متین کی خدمت کو انجام دیتے رہے، آپ کا مزار مبارک لائل پور میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ (فتاوی حامدیہ، ص:69)۔
علمی و تبلیغی کارنامے:- جانشین اعلیٰ حضرت حجتہ الاسلام حامد رضا خاں صاحب علیہ الرحمہ ایک بلند پایہ خطیب، مایہ ناز ادیب، اور یگانہ روزگار عالم و فاضل تھے دین متین کی تبلیغ واشاعت، ناموس مصطفے کی حفاظت، قوم کی فلاح و بہبود ان کی زندگی کے اصل مقاصد تھے اور یہی سچ ہے کہ وہ غلبہءِ اسلام کی خاطر زندہ رہے اور سفر آخرت فرمایا تو پرچم اسلام بلند کر کے اس دنیا سے سرخرود کامران ہو کر گئے۔
اپنی صدی کے مجددان کے والد محترم سید نا اعلیٰ حضرت نے خود ان کی علمی و دینی خدمات کو سراہا ہے، ان پر ناز کیا ہے، حجتہ الاسلام نے مسلک حقہ اہل سنت و جماعت کی ترویج و اشاعت کی خاطر برصغیر کے مختلف شہروں اور قصبوں کے دورے فرمائے ہیں۔ گستاخان رسول وہابیہ سے مناظرہ کئے ہیں، سیاستدانوں کے دام فریب سے مسلمانوں کو نکالا ہے، شدھی تحریک کی پسپائی کیلئے جی توڑ کر کوشش کی ہے اور ہر جہت کو سے باطل اور باطل پرستوں کا رد اور انسداد کیا ہے۔
تصانیف و تراجم: - حجت الاسلام کی تصانیف میں الصارم الربانی علی اسراف القادیانی، سد الفرار، سلامۃ اللہ لاہل السنۃ من سبیل العناد والفتنہ، الاجازات المتینہ، حاشیہ ملا جلال مشہور ہیں، الدولۃ المکیہ کا ترجمہ بھی ان کا علمی وادبی شاہکار ہے اس کے علاوہ یہ مجموعہ”فتاوی حامد یہ“ آپ کی فقہی شان و عظمت کا بین ثبوت ہے جسے فاضل نوجوان حضرت مولانا مفتی محمد عبد الرحیم نشتر فاروقی صاحب نے انتہائی محنت و مشقت اور کافی تلاش و جستجو کے بعد جمع فرمایا ہے جو اپنے آپ میں ایک عظیم کارنامہ ہے۔ (فتاوی حامدیہ، ص:65)۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت نور اللہ مرقدہ کی مشہور زمانہ کتاب ”حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین“ جسے انہوں نے اپنے دوسرے حج و زیارت کے موقع پر 1324 هجري کو عربی زبان میں تالیف فرمایا تھا اور جس پر علماء حرمین شریفین کی تقریظات و تصدیقات ہیں، اس کے ترجمہ کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کا ترجمہ حجتہ الاسلام علیہ الرحمہ نے کیا ہے لیکن یہ غلط ہے اس کا ترجمہ حضور اعلیٰ حضرت کے برادر زادہ یعنی ان کے منجھلے بھائی استاد زمن حضرت علامہ حسن رضا خاں علیہ الرحمہ کے صاحبزادے علامہ حسنین رضا خاں صاحب علیہ الرحمہ نے کیا ہے۔
اس ترجمہ کا نام حضرت علامہ حسنین رضا خاں صاحب نے مبین احکام و تصدیقات اعلام رکھا، یہ تاریخی نام ہے اور1325ھ میں اس کا ترجمہ ہوا ہے، شروع سے اب تک حسام الحرمین کے جتنے بھی ایڈیشن چھپ چکے ہیں سب پر مترجم کی حیثیت سے علامہ حسنین رضا خاں صاحب علیہ الرحمہ کا ہی نام ہے یہ بھی اعلیٰ حضرت کے خلیفہ ہیں۔
علامہ حسنین رضا خاں صاحب علیہ الرحمہ نے حضور اعلیٰ حضرت کا وصیت نامہ بھی وصایا شریف کے نام سے مرتب کیا ہے، وصیت میں اعلیٰ حضرت نے اپنے دونوں صاحبزادگان کے ساتھ انھیں بھی شامل کیا ہے۔اعلیٰ حضرت کے بیشتر کتب و رسائل انہیں کے اہتمام میں شائع ہوئے ہیں ان سے اعلیٰ حضرت کی چوتھی صاحبزادی بھی منسوب تھیں ان سے ایک صاحبزادی بھی تھیں جو اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔
کشف و کرامات:- آپ کے علمی و تبلیغی کارنامے دین میں آپ کی استقامت حق گوئی و بے با کی ہی کیا کسی کرامت سے کم ہے، آپ نائب رسولِ اکرم، شریعت میں نائب امام اعظم اور طریقت میں نائب غوث اعظم اور اپنے وقت کے حجتہ الاسلام تھے بیشتر کرامتیں آپ سے صادر ہوئیں۔ آپ کے چہرہ اقدس کو دیکھ کر نہ جانے کتنوں کو ایمان نصیب ہوا اور نہ معلوم کے کتنے مرتد تائب ہوئے لیکن عوام عموماً جس بات کو کرام کہتے اور سمجھتے ہیں یعنی خوارق عادات یا کسی ناممکن یا محال کام کو پورا کر کے دکھا دینا اس طور پر بھی آپ سے بہت سی کرامتیں ظہور پذیر ہوئیں۔چند واقعات یہاں بھی ذکر کئے جاتے ہیں۔
بنارس میں آپ کے تبلیغی دورے بہت ہوا کرتے تھے، یہاں کا ایک ہندو جس کے کی شادی کو برسوں ہو گئے تھے مگر کوئی اولاد نہیں ہوتی تھی، جب وہ اپنے پنڈتوں اور گروؤں سے مایوس ہو گیا تو آپ کا شہرہ سن کر حاضر خدمت ہوا اور آپ سے اولاد کیلئے درخواست کی، آپ نے اسے دعوت اسلام دی تو اس نے شرط رکھی کہ اگر لڑکا ہو گیا تو مسلمان ہو جاؤں گا اس پر آپ نے فرمایا ”ایک نہیں دو“ اور نام بھی تجویز فرما دیا، ایک سال کے بعد اس غیر مسلم کے یہاں لڑکا ہوا اور اس کے چند سال بعد دوسرا لڑکا ہوا۔ چنانچہ اولاد کی پیدائش کے بعد وہ آپ کے ہاتھوں پر مشرف بہ اسلام ہو گیا اور آپ سے مرید بھی ہو گیا، بنارس کی دعوت کا واقعہ آپ کی دعا سے پیدا ہونے والے اس شخص کے بڑے لڑکے کا ہے۔
اپنی والدہ ماجدہ کے وصال کے موقع پر حضور حجت اسلام نے قبر کو ڈھکنے کیلئے اپنے خادم فدایار خاں سے پتھر لانے کو کہا، مگر ایک پتھر کے بجائے دو پتھر لانے کو کہا جبکہ ایک قبر کو ڈھکنے کے لئے ایک ہی بڑا پتھر کافی تھا۔ فدا یار خاں صاحب یہ سن کر پریشان ہو گئے اور وہ سمجھ گئے کہ دوسرا پتھر حضرت کو اپنی قبر شریف کیلئے فرما رہے ہیں شاید جلد ہی حضرت حجتہ الاسلام بھی پردہ فرمانے والے ہیں وہ غمگین ہو گئے اور عرض کی حضور دو کی کیا ضرورت ہے ایک کیوں نہ لائیں، اس پر حجۃ الاسلام نے فرمایا، پتھر بڑی مشکل سے ملتا ہے، بعد میں دوسرا پتھر لانے کیلئے تمہیں ہی پریشانی ہوگی۔ اس اشارہ سے فدایا ر خاں صاحب اور دوسرے لوگوں کو اور بھی یقین ہو گیا کہ حضرت کو خبر ہے کہ وہ بھی جلد ہی پر دہ فرمانے والے ہیں اسی لئے دوسرا پتھر لانے کو فرمارہے ہیں۔
بہر حال فدا یار خاں حضرت سے معذرت کر کے ایک ہی پتھر لائے والدہ ماجدہ کے پردہ فرمانے کے کچھ ہی ایام بعد حضور حجتہ الاسلام کا بھی وصال ہو گیا اور آپ کی تدفین کے سلسلہ میں قبر شریف ڈھکنے کیلئے پتھر تلاش کرنے میں بڑی دشواری پیش آئی۔ اللہ اکبر حضرت حجتہ اسلام کو اپنے وصال کی خبر تھی اور یہ بھی علم تھا کہ پتھر دستیاب کرنے میں احباب کو دشواری ہوگی، یہی وجہ تھی کہ والدہ ماجدہ کے وصال کے موقع پر اپنے لئے بھی پتھر لانے کو فرمادیا تھا، حضرت حجتہ الاسلام ایک سچے ولی تھے اور انہیں اپنے مولی سے قبل وصال ہی اپنے وصال کی خبر ہو چکی تھی۔
ایک بار حضور حجتہ الاسلام علیہ الرحمہ نے بغیر کسی پروگرام کے اچانک بنارس جانے کی تیاری شروع کر دی اور خادم کو حکم دیا کہ جلد تیار ہو جاؤ بنارس چلنا ہے، گھر والے بھی حیران کہ اچانک ایسی کیا بات ہوگئی کہ بنارس جانا پڑ رہا ہے لوگوں نے عرض کی حضور موسم بھی ناسازگار ہے اور ہر طرف سیلاب ہے، خصوصاً بنارس و اطراف میں سیلاب کا زیادہ زور ہے اس لئے ایسی حالت میں سفر مناسب نہیں ہے۔ مگر حجۃ الاسلام نے کسی کی نہیں سنی اور بنارس کیلئے گھر سے نکل پڑے اور ٹرین کے بعد کشتیوں اور پالکیوں سے بنارس کے ایک غیر معروف مقام پر پہنچ گئے، حضرت کے وہاں پہنچتے ہی ایک بزرگ نے بڑی بیتابی سے اٹھ کر آپ کا استقبال کیا جیسے وہ آپ ہی کے منتظر ہوں۔
حجتہ الاسلام سے ملاقات کے بعد وہ بزرگ بیٹھ گئے اور آپ بھی ان سے بہت قریب مگر مؤدب طریقہ پردوزانو ہو کر بیٹھ گئے اور پھر دونوں ایک دوسرے سے اتنا قریب ہوئے کہ ایک دوسرے سے مل گئے، اب ان بزرگ نے اپنے دامن کو تین بار حجۃ الاسلام کی طرف جھٹکا پھر حجۃ الاسلام بڑے ہی اطمینان کے ساتھ ان سے مل کر رخصت ہوئے اور بنارس میں کسی کے یہاں رُکے بغیر بریلی شریف واپس آگئے۔ سفر میں آپ کو کوئی دقت بھی نہ ہوئی، اس دن حجۃ الاسلام نے ذکر الہی بہت دیر تک کیا جس سے آپ کے چہرے پر ایک عجیب نکھار پیدا ہو گیا، آپ تو پہلے ہی حسین اور نکھرے سنورے چہرہ والے تھے کہ دیکھنے والے فدا ہو جاتے تھے اور جانے کتنے تاریک دل ان کے چہرہ کے نور سے نور ایمان پا جاتے تھے، مگر اس روز سے نورانیت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ یہ راز آج تک نہیں کھل سکا کہ ان بزرگ نے آپ کو کیا دیا، کوئی خبر کوئی پیغام یا کوئی امانت، یہ تو یہی دونوں بزرگ جانیں، ولی ہی ولی کو پہچانتا ہے ایک ولی کو خبر ہوئی اور وہ دوسرے ولی سے ملنے کیلئے اچانک ہزار دشواری کے باوجوود وہاں پہنچ گئے اور ملاقات کر کے واپس اپنے شہر بریلی تشریف بھی لائے۔(فتاوی حامدیہ، ص:76،75،74 اور 77)۔
وصال مبارک: - حضور حجۃ الاسلام اپنے وصال سے ایک سال قبل ہی اپنی رحلت کے حالات و کوائف بیان فرمانے لگے تھے، آپ اپنے وصال کی کیفیت بیان کرتے اور فرمایا کرتے تھے: ”زبان سرکار کے درود و سلام اور ذکر میں مشغول ہوگی روح قرب و وصال کے چھلکتے ہوئے کیف و سرور کے جام سے محظوظ ہو گی“۔ 17 جمادی الاولی 1362ھ مطابق 23 مئی1943ء دوران نماز عشاء عالم تشہد میں آپ کا وصال ہوا، نماز جنازہ آپ کے تلمیذار شد محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ سردار احمد صاحب لائل پوری نے پڑھائی۔(فتاوی حامدیہ،ص:79)
مزار پر انوار: - حضور حجۃ الاسلام کا مزار مقدس روضتہ اعلیٰ حضرت کے مغرب جانب”گنبد رضا“ میں واقع ہے۔ آپ کا عرس ہر سال 17 جمادی الاولیٰ کو عرس حامدی کے نام سے ہوتا ہے اسی موقع پر جامعہ رضویہ منظر اسلام کے طلباء کی دستار بندی بھی کی جاتی ہے۔
یادگاریں: - خانقاہ اعلی حضرت آپ کی یادگاروں میں سے مخصوص یادگار ہے آپ نے اس کی تعمیر کرائی آپکی تصانیف و تبرکات بھی آپ کی یادگار ہیں بیشتر تبرکات علامہ سردار احمد صاحب کے مدرسہ مظہر اسلام لائل پور پاکستان میں محفوظ ہیں۔
تحرير:محمد فداء المصطفیٰ گیاوی
رابطہ نمبر: 9037099731
ڈومریا ،مرشد نگر بھنگیا، گیا، بہار
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں