فضائلِ یوم ِجمعہ قرآن و حدیث اور اقوالِ ائمہ کی روشنی میں | Faza-i- Juma Qurano Hadith aur Aqwale Aimmah ki roshni mai

 


فضائلِ یوم ِجمعہ قرآن و حدیث اور اقوالِ ائمہ کی روشنی میں 

       اللہ رب العزت کا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے پیارے حبیب اور ہم سب کے آقا و مولی جناب احمد مجتبی محمد مصطفی ﷺ کی امت امتِ محمدیہ میں پیدا فرمایااور طرح طرح کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ اور ہم کتنے ہی خوش بخت ،خوش نصیب اور خوش قسمت ہیں کہ اللہ رب تبارک و تعالی نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقے میں جمعۃ المبارک کی نعمت سے سرفراز فرمایا اور ہمیں یہ پیغام دیا کہ صراطِ مستقیم پر چلنے والا شخص ہمیشہ جنت ہی کا حقدار ہوتاہے ۔ مگر افسوس! کہ آج ہم سب اس دور جدید میں غفلت برتتے ہوئے جمعۃ المبارک کو بھی عام دنوں کی طرح گزار دیتے ہیں حلانکہ جمعہ کا دن اس کائنات کے تمام تر مؤمنین اور مسلمین کے لیے یومِ عید ہے،جمعہ کا دن سارے دنوں کا سردار ہے اور سید الایام کے نام سے مشہوربھی ہے ، جمعہ کے دن دوزخ کی آگ نہیں سلگائی جاتی، جمعہ کی رات جہنم کے تمام دروازے بند کردیئے جاتے ہیں ، جمعہ کو قیامت کے دن دلہن کی صورت میں اٹھایا جائیگا ،جمعہ کے دن مرنے والا شخص بڑا ہی خوش نصیبب ہوتاہے کہ وہ شخص شہید کا درجہ پاتا ہے اور عذابِ قبر سے محفوظ بھی رہتاہے اور مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ کے فرمان کے مطابق جمعہ کو حج ہو تو اس کا ثواب ستّر حج کے برابر ہے ۔ 

       جمعہ کے دن کی ایک نیکی کا ثواب ستّر گنا زیادہ ملتا ہے اور ایک گناہ کا عذاب بھی ستّر گنا زیادہ ملتا ہے ۔ فضائلِ جمعہ کے متعلق میری کیا حیثیت کہ میں کچھ خامہ فرسائی کر سکوں کیوں کہ اللہ تبارک و تعالی نے فضائلِ جمعہ کے متعلق مکمل ایک پوری سورت ‘‘ سورۃ الجمعہ’’ کے نام سے نازل فرمائی ہے جو کہ قرآنِ مقدس کے اٹھائسویں پارے میں چمک رہی ہے اور اپنی موجودگی کا ثبوت دے رہی ہے ۔آئیے ہم سب فضائل یوم جمعہ قرآن و احادیث اور اقوال ائمہ کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں ۔ 

       خالقِ کائنات اللہ رب العزت قرآنِ مقدس میں ارشاد فرماتاہے : ‘‘ اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دویہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو’’۔ (ترجمہ: کنز الایمان،پ: ۳۰،سورہ:جمعہ،آیت: ۹)۔اور ساتھ ہی شیخ الحدیث اولتفسیر ابو صالح مفتی محمد قاسم قادری عطاری اپنی کتاب ‘‘ صراط الجنان فی تفسیر القرآن’’ میں اس آیت کا ترجمہ کچھ اس طرح لکھتے ہیں : ‘‘ اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو اگر تم جانو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے ’’ ۔ 

       اس آیت سے نمازِ جمعہ کے احکام بیان کئے جارہے ہیں ۔یہاں اس آیت سے متعلق تیں باتیں ملاحظہ ہو:۔۔۔ اول : اس آیت میں اذان سے مراد پہلی اذان ہے نہ کہ دوسری اذان جو خطبہ سے متصل ہوتی ہے ۔ اگر چہ پہلی اذان حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اضافہ کی گئی مگر نماز کی تیاری کے واجب ہونے اور خرید و فروخت ترک کر دینے کا تعلق اسی سے ہے ۔ دوم : دوڑنے سے بھاگنا مراد نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ نماز کے لئے تیاری شروع کردو اور ذکر اللہ سے جمہور علماء کے نزدیک خطبہ مراد ہے ۔ سوم: اس آیت سے نمازِ جمعہ کی فرضیت،خریدو فروخت وغیرہ دنیوی مشاغل کی حرمت اور سعی یعنی نماز کے اہتمام کا وجوب ثابت ہوا اور خطبہ بھی ثابت ہوا۔ (تفسیر خزائن العرفان،آیت:۹،ص: ۱۰۲۵ /و صراط الجنان فی تفسیر القرآن ،ج:۱۰،ص:۱۵۲)۔

       ہم نے فضائل جمعہ اور وجوب جمعہ کے متعلق قرآن مقدس کی مبارک آیت سے بہت کچھ سمجھا۔ اب آئیے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوال ائمہ کی روشنی میں جمعۃ المبارک کی فضیلت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں : 

       روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے ،فرماتے ہیں ،فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ‘‘ بہترین وہ دن ہے جس میں سورج نکلے ،وہ جمعہ کا دن ہے ۔ اسی میں حضرت آدم (علیہ السلام) پیدا ہوئے ،اسی میں دن جنت میں گئے ،اسی دن وہاں سے بھیجے گئے اور قیامت بھی جمعہ کے دن ہی ہوگی’’۔ (رواہ مسلم، کتاب الجمعہ، باب فضل یوم الجمعہ،ص: ۴۳۵)۔

       اسی حدیث کے ضمن میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں :‘‘ پہلے بھی بڑے بڑے واقعات اس دن میں ہی ہوئے اور آئندہ نہایت اہم اور سنگین واقعہ وقوع قیامت کا اسی دن ہوگااس لیے یہ دن بڑی عظمت والا ہے۔خیال رہے کہ آدم علیہ السلام کا جنت میں جانا بھی اللہ کی رحمت تھی اور وہاں سے تشریف لانا بھی کیوں کہ وہاں سیکھنے گئے تھے یہاں سکھانے اور خلافت کرنے آئے ’’ ۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ جس دن میں دینی اہم واقعات ہوچکے ہیں وہ دن تاقیامت افضل ہو جاتا ہے اور اس دن میں خوشیاں منانا اور عبادتیں کرنا بہت بہتر ہوتا ہے ۔ 

       روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے ،فرماتے ہیں ،فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ‘‘جمعہ میں ایک گھڑی ہے جسے بندۂ مومن نہیں پاتا کہ اس میں اللہ سے خیر مانگے مگر اللہ اسے وہ ضرور دیتا ہے’’ ۔(مراۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح،ج: ۲،ص: ۳۱۱)۔امام مسلم نے زیادہ کیا،فرمایا وہ چھوٹی سے گھڑی ہے اور مسلم بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ میں ایک ساعت ہی جسے مسلمان نہین پاتا کہ کھڑا ہوا نماز پڑھتا ہو ،اللہ سے خیر مانگے مگر اللہ اسے ضرور دیتا ہے ۔(رواہ مسلم و بخاری) 

       اس آیت کی تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں :‘‘جمعہ کی وہ ساعت قبولیت دعا کی ہے ، رات میں رزانہ وہ ساعت آتی ہے مگر دنوں میں صرف جمعہ کے دن یقینانہیں معلوم کہ وہ ساعت کب ہے۔غالب یہ ہے کہ دوخطبوں کے درمیان یا مغرب سے کچھ دیر پہلے ’’۔ (مراۃ المناجیح،ج:۲،ص:۳۱۱)۔ اور امام بخاری کی جواوپر حدیث پیش کی گئی اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اس دن میں اس میں مسلمان کی دعا قبول ہوتی ہے نہ کہ کافر کی ۔ نماز ی متقی کی دعا قبول ہوتی ہے نہ کہ فساق وفجار کی جو جمعہ تک نہ پڑھیں اور صرف دعاؤں پر ہی زور دیں ۔ اصل میں اسی جانب اشارہ ہے نہ کہ نماز کی حالت میں دعا کیسے مانگی جائیگی۔ 

       روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ، فرماتے ہیں ،فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ : ‘‘ جمعہ کی رات روشن رات ہے اور جمعہ کا دن چمک دار ہے ’’ ۔ (مراۃ المناجیح،ج:۲،ص:۳۱۲)۔ صوفیاء فرماتے ہیں کہ اس جمعہ کی رات میں بھی خوب عبادتیں کرواور دن میں بھی کیوں کہ یہ دن عند اللہ بہت ہی پسندیدہ ہے اور اسی وجہ اس دن کو سید الایام کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ 

       حضور صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ اپن کتاب ‘‘ بہارِ شریعت’’ میں رقمطراز ہیں : ‘‘جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت افضل ہے اور زیادہ بزرگی رات میں پڑھنے کی ہے’’ ۔اور آگے لکھتے ہیں کہ بیہقی میں بسند صحیح ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں ، فرمایا رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے :‘‘ جو شخص سورۂ کہف جمعہ کے دن پڑھے اس کے لئے دونوں جمعوں کے درمیان نور روشن ہوگا’’۔ (بہارِ شریعت، ج:۱،حصہ: چہارم،ص:۷۷۶)۔

       ساتھ ہی ایک دوسری جگہ صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سیّد محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ۱۲ ربیع الاول (۶۲۲ء) روز شنبہ کو چاشت کے وقت مقامِ قبا میں اقامت فرمائی۔ دوشنبہ،سہ شنبہ ، چہار شنبہ اور پنج شنبہ یہاں قیام فرمایااور مسجد کی بنیاد رکھی۔ روز جمعہ مدینہ منورہ کا عزم فرمایا۔ بنی سالم ابن عوف کے بطنِ وادی میں جمعہ کا وقت آیا اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنایا۔ سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں جمعہ ادا فرمایا اور خطبہ فرمایا’’۔ (خزائن العرفان،ص:۸۸۴)۔

       روایت ہے حضرت ابو بردہ ابن ابوموسی سے،فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو فرماتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوجمعے کے ساعت کے بارے میں فرماتے سنا کہ:‘‘ وہ امام کے بیٹھنے سے ادائے نمازکے درمیان ہے ’’۔ (مراۃ المناجیح،ج:۲،ص:۳۱۱)۔

       اس حدیث سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس وقت سے امام منبر پر خطبے کے لیے بیٹھے اس وقت سے نمازِ جمعہ ختم ہونے تک قبولیت کا وقت ہے مگر اس وقت میں تیاری نماز ہوتی ہے نہ کہ نماز نیز دعا بزبان حال ہوگی نہ زبان قَالَ کیوں کہ اس وقت نماز کلام جائز نہیں ہے ۔ خیال رہے کہ اس ساعت کے متعلق علماء کی چالیس قول ہیں جن میں سے دو قول زیادہ ہی قوی ہیں اور اس میں سے ایک قول اور بھی زیادہ قوی اور اقوی ہے اور وہ یہ کہ :‘‘ اس وقت کا دوسرے آفتاب ڈوبتے وقت کا ’’۔ (مراۃ المناجیح،ج:۲،ص:۳۱۲)۔اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کا یہ معمول رہا کرتا تھا کہ اس وقت خود حجرے میں بیٹھتیں اور اپنی خادمہ فضہ کو باہر کھڑا کرتیں جب آفتاب ڈوبنے لگتا تو خادمہ آپ کوخبر دیتی تو اس کی خبر پر آپ دعا فرماتیں۔ 

       روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عمر سے ، فرماتے ہیں ، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے: ‘‘ ایسا کوئی مسلمان نہیں کہ جو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہو مگر اللہ تعالی اسے عذابِ قبر سے محفوظ رکھتاہے ’’۔ (مراۃ المناجیح،ج:۲،ص:۳۲۰)۔

       اس حدیث کے ضمن میں حکیم الامت مفتی احمد یا ر خان نعیمی علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں: ‘‘ جمعہ کی شب یا جمعہ کے دن مرنے والے مومن سے نہ حسابِ قبر ہو گا نہ عذابِ قبرکیوں کہ اس دن کی موت شہادت کی موت ہے اورشہید حساب و عذاب سے محفوظ ہے جیسا کہ دیگر رویات میں ہے ۔ اورہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ آٹھ شخصوں سے حسابِ قبر نہیں ہوتاجن میں سے ایک یہ بھی ہے ’’ ۔ (مراۃ المناجیح،ج:۲،ص:۳۱۲)۔

       اور ہم سب کے امام سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت حامئی اہلسنت قاطع بدعت و ضلالت وَ صاحبِ کنز ا لکرامت الشاہ مفتی احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اس دن میں روزہ رکھنے کے متعلق کیاہی خوب لکھتے ہیں: ‘‘ روزۂ جمعہ یعنی جب اس کے ساتھ پنج شنبہ(یعنی جمعرات کا) یا شنبہ (ہفتہ کا روزہ) بھی شامل ہو، مروی ہوا ہے کہ دس ہزار برس کے روزوں کے برابر ہے ’’۔ (فتاوی رضویہ،ج:۱۰ ، ص:۶۵۲)۔

       اخیر میں صرف تین حدیثیں پیش کرکے جمعہ کی فضیلت کواجاگر کرنا چاہتا ہوں : ۔ اول :ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں :‘‘ جس نے اچھی طرح وضو کیا پھر جمعہ کی نماز کو آیااور خطبہ سنااور چپ رہا اس کے لے مغفرت ہوجائیگی ان گناہوں کی جو اس نے جمعہ اور دوسرے جمعہ کیس درمیان ہیں اورتین دن اور۔ اور جس نے کنکری چھوئی اس نے لغو کیایعنی خطبہ سننے کے حالت میں اتنا کام بھی لغو میں داخل ہے کہ کنکری پڑی ہوئی ہے تو ا سے ہٹادے ’’۔ (صحیح المسلم ،ص:۴۲۷)۔

       دوم : ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :‘‘جمعہ کے دن مجھ پر درود کی کثرت کرو کہ یہ دن بہت مشہورہے ،اسی میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور جو مجھ پر درود پڑہیگا پیش کیا جائے گا’’۔ اور ابودرداء سے روایت ہے کہ کہتے ہیں : میں نے عرض کی اور موت کے بعد ؟ تو فرمایا:‘‘ بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء علیہم السلام کے جسم کو کھانا حرام کر دیا ہے ،اللہ کا نبی زندہ ہے اور روزی دیا جاتاہے ’ ’ ۔ (سنن ابن ما جہ ، ج ۲ ،ص:۲۹۱)۔

       سوم: طبرانی کی روایت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے ہے کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں :‘‘ جمعہ کفارہ ہے ان گناہوں کے لیے جواس جمعہ اور اس کے بعد والے جمعہ کے درمیان ہیں اوراتین دن زیادہ اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ رب العزت فرماتاہے : ’’ جوایک نیکی کرے اس کے لیے دس مثل ہے ’’۔ (المعجم الکبیر ،ج۳،ص۲۹۸)۔

       اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی ہمیں نمازِ جمعہ کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اس دن میں کثرت سے روزے رکھنے کو توفیق عطا فرمائے،زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے ،جمعہ کا دل سے احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے،سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور دارین کی سعادتوں سے مالا مال کرے آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔



تحرير:محمد فداء المصطفیٰ گیاوی

رابطہ نمبر: 9037099731

ڈومریا ،مرشد نگر بھنگیا، گیا، بہار  

 

 

تبصرے