خدا کے فضل سے ہم پر ہے سایہ غوث اعظم کا
میرے آقا
حضور غوث اعظم دستگیر عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نبی مکرم، رسول معظم، سرکار
اعظم، رحمت عالم سرکار مدینہ ﷺکے اخلاق و عادات کے مظہر کامل ہیں اسی لئے اولیاء
کرام اور علمائے عظام نے آپ کی بارگاہ غوثیت میں نذر عقیدت پیش کیا اور آپ کی عظیم
شان و عظمت کو یوں بیان کیا ہے کہ میرے آقا حضور غوث اعظم دستگیر عبد القادر
جیلانی رضی اللہ عنہ ہر غم زدہ اور پریشان حال کی دستگیری فرماتے، ضعیفوں میں
بیٹھتے، فقیروں کے ساتھ تواضع سے پیش آتے، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت فرماتے،
سلام میں پہل کرتے، لوگوں کی خطاؤں اور کوتاہیوں کو درگزر فرماتے، جو کوئی بھی آپ
کی ذراسی خدمت کرتا نذرونیاز، ہدیہ تحفہ پیش کرتے اس کی قدر کرتے۔
جود وسخا
کا یہ عالم تھا کہ ایک ہی مجلس میں بعض اوقات چار سو حاضرین کو ولایت کے مقام تک
پہنچا دیتے، آپ انتہائی رحیم اور کریم النفس تھے۔ شجاعت ایسی کہ خلیفہ وقت کو منبر
پر بیٹھے للکار کر خلاف شرع امور سے روکتے، صدق وصفا میں کمال درجہ رکھتے تھے۔
امانت کے پاسباں، انصاف و عدل کے پیکر عفوو عطا فرمانے والے، علم و حیا میں بے مثل
و بے مثال، مروت و ملاحظہ میں بے نظیر، اپنی ذات کے لئے کبھی بدلہ نہ لیتے بلکہ آپ
کی شان میں کوئی بے ادبی کرتا تو اللہ تعالی اس شخص کو سزا دیتا۔ بھوکوں کوکھانا
کھلانا اورمحتاج یتیم اور بیوہ کی حاجت روائی کرنا آپ کے کرم میں شامل تھا۔
پیارے
رحمت والے نبی ﷺ کی امت کی بخشش کی دعا کرتے اور کوئی بیمار ہوتا تو عیادت فرماتے،
دعوت قبول فرماتے، اثر انگیز و نصیحت آمیز وعظ فرماتے، وعظ میں بہت سے یہودی،
عیسائی و غیر مسلم اسلام قبول کرتے اور گنہگار تائب ہوتے۔ ان تمام سے زائد اوصاف
اور اخلاق کی حامل ذات مبارکہ ہے میرے آقا حضور غوث اعظم دستگیر عبد القادر جیلانی
رضی اللہ عنہ کی۔
اولیاء
کرام تو بہت ہوئے اور قیامت تک اولیاء کرام کی تشریف آوری کا نورانی سلسلہ جاری
رہے گا لیکن جماعت اولیاء میں جو مقام ہمارے بڑے پیر یعنی سرکار غوث اعظم رضی اللہ
عنہ کو حاصل ہے ہر ولی کو یہ شان میسر نہیں۔اسی لیے تو کسی فارسی شاعر نے کچھ یوں
لکھا کہ:
ایں سعادت
بزور بازو نیست
تانہ بخشد
خدائے بخشندہ
نسبی
شرافت اور خاندانی وجاہت کے علاوہ علمی جلالت علمی عظمت، کمال ولایت، کثرت کرامت،
یہ سب آپ کی وہ خاص الخاص خصوصیت ہے جو بہت کم اولیاء کو حاصل ہوئی۔ اسی سبب سے
بہت سے ولی اپنے اپنے دور میں چاند سورج کی طرح چمکے اور چند دنوں ان کی ولایت کا
ڈنکا بجتا رہا مگر دھیرے دھیرے انکے ذکر وشہرت کی روشنی گھٹتی اور کم ہوتی چلی گئی
یہاں تک کہ دنیا ان کے ناموں کو بھول گئی مگر ہمارے بڑے پیریعنی حضور غوث اعظم رضی
اللہ عنہ کو تقریبا نوسو برس سے زائد کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود آپ کی شہرت
و مقبولیت کے آفتاب و ماہتاب کو کبھی گہن نہیں لگا، ہمیشہ آپ کی ولایت و کرامت کا
ڈنکا مشرق و مغرب شمال و جنوب ہر چار دانگ عالم میں بجتا ہی رہا اور آج بھی آپ کی
عظمتوں اور کرامتوں کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے اور ان شاء
اللہ قیامت تک چمکتا ہی رہے گا۔ کیا ہی خوب فرمایا امام احمد رضا خان فاضل بریلوی
رضی اللہ عنہ نے کہ:
تو
گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے
تجھے اللہ تعالی تیرا
سورج
انگلوں کے چکتے تھے چمک کر ڈوبے
افق نور
پہ ہے مہر ہمیشہ تیرا
ہمارے بڑے
پیر حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ یکم رمضان ۴ ھ کو ایران کے ایک شہر جیلان میں
پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی سید ابو صالح موسیٰ جنگی دوست اور والدہ
کا نام مبارک ام الخیر فاطمہ ثانی ہے۔ والد ماجد کی طرف سے آپ کا شجرہ نسب حضرت
سید نا امام حسن رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے اور والدہ ماجدہ کی طرف سے آپ کا سلسلہ
نسب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے وابستہ ہے، اس لئے آپ خاندانی شرافت اور نسبی
وجاہت کے اعتبار سے حسنی سید بھی ہیں اور حسینی سید بھی۔ اسی مضمون کو سرکار اعلی
حضرتاامام رحمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ نے یوں بیان فرمایا ہے۔
تو حسینی
حسنی کیوں نہ محی الدین
اے
خضر مجمع بحرین ہے چشمہ تیرا ہو
تمام
بزرگان دین کا اتفاق ہے کہ آپ مادر زاد ولی ہیں۔ چنانچہ ولادت کے بعد ہی آپ کی یہ
کرامت ظاہر ہوئی کہ آپ رمضان میں طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کبھی دودھ نہیں پیتے
تھے یعنی رمضان شریف کے پورے مہینے آپ روز ہ رکھتے تھے اور جب افطار کا وقت ہوتا
مغرب کی اذان ہوتی تو آپ دودھ پینے لگتے، یہ کر امت اس قدر مشہور ہوئی کہ جیلان کے
ہر طرف یہ شہرہ اور چرچا تھا کہ سادات کے گھرانے میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو
رمضان مبارک میں دن بھر دودھ نہیں پیتا۔ (قلا ئد الجواہر: ص: ۳)۔
رہے پابند
احکام شریعت ابتدا ہی سے
نہ
چھوٹا شیر خواری میں بھی روزہ غوث اعظم کا
ہم حضور
غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے بچپن مبارک سے سبق حاصل کریں کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ
عنہ پیدا ہوئے اور رمضان شریف کا برکت والا مہینہ آیا تو روزہ رکھا یعنی شیر
خوارگی کے زمانے میں بھی روزہ نہ چھوڑا اور ہم غلاموں کو سبق دے گئے کہ ہمارا سچا
غلام وہی ہے جو رمضان شریف کا احترام کرے اور روزے کا پابند بنے۔
یہ شانِ
عبادت و بندگی ہے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے بچپن شریف کی۔ تو جس کا
بچپن اتنا بے مثال ہے اس کی مکمل حیات طیبہ کی شان بے مثال کا کیا عالم ہوگا۔ خوب
فرمایا امام اہل سنت مجدد دین و ملت، امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ
نے:
غوث
اعظم امام اتقی والنقی
جلوہ
شان قدرت پہ لاکھوں سلام
حضور غوث
اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے عرض کیا گیا کہ آپ کو اپنی ولایت کا علم کب ہوا؟ تو
آپ نے فرمایا کہ دس برس کی عمر میں جب میں کتب میں پڑھنے کے لئے جاتا تھا، تو راستے
میں میرے پیچھے پیچھے فرشتے چلتے نظر آتے تھے پھر جب میں مکتب میں پہنچتا تو ان کو
یہ کہتے ہوئے سنتا کہ افْسَحُوا لِوَلِیِّ اللہ طب یعنی اللہ کے ولی کے لئے بیٹھنے
کی جگہ دو اور یہ آواز تمام مکتب والے سنتے تھے۔ (خلاصۃ المفاخر، شیخ عبدالحق محدث
دہلوی)۔
واہ کیا
مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے
اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
اور آپ
مدینۃ العلم بغداد شریف پہنچ کر وہاں کی مشہور و معروف درسگاہ جامعہ نظامیہ میں
بحیثیت ایک طالب علم کے داخل ہوئے اور بڑے بڑے مشہور علماء کے حلقہ درس میں شامل
ہو کر علوم کی تکمیل فرمائی۔ علامہ ابوزکریا یحی بن علی سے علم ادب پڑھا اور
ابوالوفاء علی بن عقیل اور محمد بن قاضی ابو یعلی اور حضرت قاضی ابوسعید مخذومی
وغیرہ با کمال حضرات سے فقہ اور اصول فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ اور ابو غالب محمد بن
الحسن با کلانی وغیرہ تقریبا سترہ محدثین کرام کی درسگاہوں میں علم حدیث پڑھ کر
مہارت تامہ حاصل فرمائی۔ اس طرح تمام علوم عربیہ میں مکمل مہارت حاصل کر لیا۔
چنانچہ قصیدہ غوثیہ شریف میں آپ نے فرمایا کہ:۔
درَسُتُ
الْعِلْمَ حَتَّی صِرْتُ قُطْبًا
وَنلْتُ
السَّعْدَ مِنْ مَّوْلَی الْمَوَالِی
ترجمہ:
یعنی میں علم پڑھتا رہا یہاں تک کہ قطب ہو گیا اور تمام مولاؤں کے مولی اللہ تعالی
کی طرف سے مجھے تمام سعادت کے خزانے مل گئے۔ (قصیدہ غوثیہ شریف)۔
حضرت شیخ
عثمان سرفینی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ جس زمانے
میں عراق کے جنگلوں اور ویرانوں میں عبادت وریاضت میں مشغول تھے تو بسا اوقات
جنگلوں کی بھیا تک اور اندھیری راتوں میں شیاطین مسلح ہو کر خوفناک صورتیں بنا کر
آپ کے پاس آتے اور ڈراتے، آپ پر آگ پھینکتے اور لڑا کرتے تھے اور ہاتف غیبی کی یہ
آواز سنتے تھے یعنی اے عبد القادر تم ان شیطانوں کے مقابلے کے لئے اٹھو کیونکہ ہم
نے تمہیں ثابت قدم رکھا ہے اور ہماری تائید تمہارے ساتھ ہے۔ (بہجۃ الاسرار،ص: ۲۵۲)۔
حضور غوث
اعظم رضی اللہ عنہ کے فرزند شیخ موسیٰ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ اپنی سیاحت
کے دوران ایک مرتبہ آپ کسی ایسے جنگل میں چلے گئے جہاں پانی کا نام ونشان تک نہ
تھا، کئی دن آپ پر پیاس کا سخت غلبہ ہوا اور اچانک آپ کے سر مبارک پر بادل کا ٹکڑا
آ گیا اور بارش ہونے لگی جس سے آپ خوب سیراب ہو گئے پھر اس بادل سے ایک روشنی ظاہر
ہوئی جو حد نظر تک پھیل گئی اور اس روشنی میں ایک صورت ظاہر ہوئی اس نے پکار کر
کہا اے عبد القادر! میں تمہارا رب ہوں میں نے تم پر تمام حرام چیزوں کو حلال کر
دیا۔ یہ آواز سن کر میرے آقا حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے اعوذ باللہ من الشیطان
الرجیم پڑھا اور فرمایا اے مردود تو دور ہو جاوہ روشنی غائب ہوگئی اور وہ صورت
دھوئیں کی طرح ہو کر پھیل گئی، پھر اس سے آواز آئی اے عبد القادر! آج تم اپنے علم
کی بدولت میرے فریب سے بچ گئے ورنہ اس کے پہلے اسی میدان میں ستر اولیاء وطریقت کو
میں گمراہ کر کے ان کی ولایت کو غارت و بر باد کر چکا ہوں۔اس کی بعد حضور غوث اعظم
رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”اے شیطان! میر اعلم بھلا کیا بچا سکتا ہے، جب تیرا علم
تجھ کو نہیں بچا سکا۔ اے شیطان مردود خوب غور سے سن لے، میرے علم نے نہیں بلکہ
میرے رب کے فضل و کرم نے مجھے تیرے شرسے بچالیا“۔
پھر حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ حضور! آپ نے یہ کیسے پہچان
لیا کہ یہ شیطان ہے تو آپ نے فرمایا کہ اس گمراہ کن قول سے کہ تمام حرام چیزوں کو
تیرے لئے حلال کر دیا ہے۔ فورا میں نے پہچان لیا کہ یہ شیطان ہی ہے۔ کیونکہ اللہ
تعالی بھی ناپاک اور حرام چیزوں کو کسی کے لئے حلال نہیں فرماتا۔ (قلائد
الجواہر،ص:۰۲)۔
غوث اعظم
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: اے انسان، اگر تجھے محد سے لے کر لحد تک کی زندگی دی
جائے اور تجھ سے کہا جائے کہ اپنی محنت، عبادت و ریاضت سے اس دل میں اللہ کا نام
بسا لے تو ربِ تعالی کی عزت و جلال کی قسم یہ ممکن نہیں حش، اُس وقت تک کہ جب تک
تجھے اللہ کے کسی کامل بندے کی نسبت وصحبت میسر نہ آجائے۔اہلِ دل کی صحبت اختیار
کر تاکہ تو بھی صاحبِ دل ہو جائے۔ میرا مرید وہ ہے جو اللہ کا ذاکر ہے اور ذاکر
میں اُس کو مانتا ہوں، جس کا دل اللہ کا ذکر کرے۔
اللہ رب
العزت کی باگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں غوث پاک ک سیرت کو اجاگر کرنے توفیق
عطا فرمائے، ان کی سنت پر چلنے کو توفیق عطا فرمائے اور غوث پاک کے فرمودات
پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور خصوصیت کے سنت مصطفی ﷺ پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے اور دارین کی سعادتوں سے مالامال فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین
ﷺ
تحرير:محمد فداء المصطفیٰ گیاوی
رابطہ نمبر: 9037099731
ڈومریا ،مرشد نگر بھنگیا، گیا، بہار
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں