بلا شک و شبہ سرکار کی آمد ہمارے لیے اللہ رب العزت کی سب سے بڑی نعمت ہے!
رب تبارک و تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر و
احسان ہے کہ
اس نے ہمیں اور آپ کو بے شمار نعمتوں سے
مالا مال فرمایا۔ اس کی کن کن نعمتوں کا تذکرہ کیا جائ آپ جدھر نگاہ اٹھا کر
دیکھئے اس کی کا جلوہ نظر آئے گا۔ آسمان اس کی نعمت، زمین، اس کی نعمت، ہوا، اس کی
نعمت، پانی، اس کی نعمت، کھانا، اس کی نعمت، دانہ، اس کی نعمت، چاند، اس کی نعمت،
سورج، اس کی نعمت، جسم اسی کی نعمت، جان اس کی نعمت، قرآن اسی کی نعمت اور ایمان
اس کی نعمت۔انسانوں کی کیا مجال کہ اس کی نعمتوں کو شمار کر سکے۔ خود اللہ رب العزت
ارشاد فرماتا ہے۔ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ
اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَااِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (پ14، آیت:81)۔ ترجمہ: اوراگر تم اللہ
کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہیں کرسکو گے، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
مگر
پروردگار عالم کا کرم دیکھئے اس نے اپنے بندوں کو ان گنت نعمتوں سے نواز اگر کسی
نعمت پر احسان نہیں جتایا مثلاً: عقل و شعور سے نوازا، علم وفن سے نوازا، آسمان کا
شامیانہ لگایا،چاند کی چاندنی سے نوازا،دل و دماغ سے نوازا، آنکھوں کو بینائی عطا
کی، آنکھیں عطا کیں، زمین کا فرش بچھایا، آسمان سے پانی برسایا، زمین دانہ اگایا،
سورج کی روشنی سے نوازا، کہکشاں کے جمال سے نوازا، پھولوں کی نکہت سے نوازا، مال
ودولت کی کثرت سے نوازا، عزت و عظمت سے نوازا، کان میں قوت سماعت عطا کی، زبان کو
قوت گویائی عطا کی، ہاتھ کو پکڑنے کی صلاحیت عطا کی اور پاؤں میں چلنے کی سکت عطا
کی۔مختصر یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو وجود بخشا مگر احسان نہیں
جتایا۔
یوں
ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کے لیے انبیاء کرام کو دنیا میں بھیج کر
احسان عظیم فرمایا، مگر پروردگار عالم نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ اے لوگوں! میں نے
آدم کو صفی اللہ بنا کر بھیجا، نوح کو نجیب اللہ بنا کر بھیجا، ابراہیم کو خلیل
اللہ بنا کر بھیجا، اسماعیل کو ذبیح اللہ بنا کر بھیجا، موسیٰ کو کلیم اللہ بنا کر
بھیجا اور میں نے عیسیٰ کو روح اللہ بنا کر بھیجا اس لیے تمہارے اوپر احسان کیا۔
مگرجب
ذکر کرنا مقصود ہوا مد ینہ کے تاجدار کا،دونوں عالم کے مختار کا، سرکار ابد قرار
کا، شافع روز شمار کا اور امت کے غم خوار کا تو پروردگار عالم نے قرآن مقدس
میں ”لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیہم رسولا من أنفسہم“ فرما کر سر کار کی عظمت کا
پرچم لہرا دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر احسان جتا کر ساری
مخلوق میں آپ کو ممتاز و بلند فرما دیا۔ اسی لیے تو سر کار اعلیٰ حضرت امام عشق و
محبت فرماتے ہیں۔
سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی
سب سے بالا و والا ہمارا نبی
اپنے مولیٰ کا پیارا ہمارا نبی
دونوں عالم کا دولہا ہمارا نبی
کیا خبر کتنے تارے کھلے چھپ گئے
پر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارا نبی
ہو
سکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ بات آئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں
میں سے کسی اور نعمت پر احسان نہیں جتایا سرکا ر ہی کی آمد پر احسان جتایا۔ آخر
ایسا کیوں؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی دنیا والوں اور بالخصوص
مومنوں کے دل و دماغ میں یہ بات اچھی طرح بیٹھانا چاہتا ہے کہ دنیا کی ساری نعمتیں
اپنی جگہ اور میرے محبوب کی عظمت اپنی جگہ ہے۔ انہیں تم دنیا کی اور نعمتوں کی طرح
مت سمجھے لینا۔ ان کا ذکر خصوصیت سے اس لیے کیا جا رہا ہے تا کہ تم ان کی عظمت
سمجھ سکو اور ان کی قدر و منزلت کا اندازہ لگا سکو۔ ان کی محبت سے اپنے سینہ کو
مدینہ بنالو یہ تمہاری زندگی کی معراج ہے اور اس میں تمہاری کامیابی کا راز ہے۔
اور
بھلا احسان کیوں نہ جتایا جائے کہ سرکار کے صدقے میں ہمیں سب کچھ ملا ہے۔ اگر سر
کار کی ولادت مقصود نہ ہوتی تو کائنات کا وجود نہ ہوتا۔ یہ زمین و زمان مکین و
مکاں، یہ صبح و مسا،یہ شمس و قمر،یہ برگ و ثمر، یہ شجر و حجر،یہ سب حضور ہی کا
صدقہ ہے۔ اس سلسلے میں حدیث قدسی ہے۔ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاکَ
وَالارْضِینَ۔ اے محبوب! اگر آپ کو پیدا کرنا مقصد نہ ہوتاتو نہ زمین پیدا کرتا نہ
آسمان۔ اسی لیے تو مجدد دین وملت سرکار اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں۔
زمین و زماں تمہارے لیے مکین و مکاں تمہارے لیے
چنین و چناں تمہارے لیے بنے دو جہاں تمہارے لیے
دہن میں زباں تمہارے لیے بدن میں ہے جاں تمہارے لیے
ہم آئے یہاں تمہارے لیے اٹھیں بھی وہاں تمہارے لیے
اور ایک دوسرے مقام پرامام عشق و محبت سرکار
اعلی حضرت نے یوں ارشاد فرمایا۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو
کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
سرکار
کی آمد کیا ہوئی کہ عالم میں انقلاب برپا ہو گیا۔ کفر و شرک کے بادل چھٹ گئے، ظلم
و زیادتی کی آندھی تھم گئی۔ طاقت وقوت کا بے جا استعمال بند ہو گیا۔ مظلوموں کی
سسکیاں مسکراہٹوں میں تبدیل ہو گئیں۔ عورتوں کو باوقار مقام مل گیا اور بچیاں خیر
و برکت کا پیغام بن گئیں۔
جس
رسول کے قدموں کی برکت نے ذروں کو آفتاب اور غلاموں کو امام بنا دیا۔ بھلا ان کی
تعریف و توصیف کون بیان کر سکتا ہے؟ میں کیا اور میر اعلم ہی کتنا؟ آئیے ہم اور آپ
مل کر علم و فن کے تاجداروں کی بارگاہ میں حاضری دیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ
کیا کہتے ہیں۔ سرکار کے جمال جہاں آرا کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں:
چاند سے تشبیہ دینا یہ بھی کیا انصاف ہے
چاند میں تو داغ ہے اور ان کا چہرہ صاف ہے
سرکار مفتی اعظم ہندعلامہ مصطفی رضا خان علیہ
الرحمہ فرماتے ہیں۔
وصف کیا لکھے کوئی اس مہبط انوار کا
مہرومہ میں جلوہ ہے جس چاند سے رخسار کا
عرش اعظم پر پھر میرا ہے شہ ابرار کا
بجتا ہے کونین میں ڈنکا میرے سرکار کا
اور سر کار مجد اعظم امام عشق و محبت سرکار اعلی حضرت
علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔
وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں
نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں
نہیں
اور
مجدد اعظم سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ حضرت جبرئیل
علیہ السلام کے قول کی ترجمانی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
یہی بولے سدرہ والے چمن جہاں کے تھالے
سبھی میں نے چھان ڈالے ترے پایہ کا نہ پایا
جس
رسول کے قدموں کی مثال جبرئیل نہ پاسکے ان کے رخ انور کی تعریف بھلا کون کر سکتا
ہے؟۔ بڑے خوش نصیب ہیں ہم اور آپ کہ سرکار کی محفل سجاتے ہیں۔ آپ کا ذکر سنتے اور
سنا تے ہیں۔ اللہ اللہ قربان جائیے اس محفل کی عظمت پر جس کا اہتمام صرف ہم نے
نہیں کیا، آپ نے نہیں کیا، جس کا اہتمام صرف شہر والوں نے نہیں کیا، دیہات والوں
نے نہیں کیا، مشرق والوں نے نہیں کیا، مغرب والوں نے نہیں کیا، شمال والوں نے نہیں
کیا، جنوب والوں نے نہیں کیا، جس محفل پاک کا اہتمام صرف اد بانے نہیں کیا، شعرا
نے نہیں کیا، علما نے نہیں کیا، فضلا نے نہیں کیا، اولیا نے نہیں کیا، اصفیا نے
نہیں کیا، جس محفل مقدس کا اہتمام صرف انبیا اور رسولوں نے ہی نہیں کیا بلکہ یہ وہ
مقدس محفل ہے جس کا اہتمام خود خالق کا ئنات نے کیا ہے۔ اس لیے یہ محفل بڑی مقدس
اور متبرک ہے۔
بزم
میلاد کا اہتمام ایسا عمل ہے جس سے سرکار مدینہ راحت قلب و سینہ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم خوش ہوتے ہیں اور جس سے سرکار خوش ہوتے ہیں،اس سے رب خوش ہوتا ہے۔ حضرت
سیدنا ابن نعمان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں رحمت عالم نور
مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تو عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کیا آپ کو ہر سال ولادت مبارک پر خوشیاں منانا پسند آتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا، جو ہم سے خوش ہوتا ہے ہم بھی اس سے خوش ہوتے ہیں۔
بلا
شک و شبہ سرکار کی آمد ہمارے لیے رب تبارک و تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے اس لیے
اس نعمت عظمی کی قدر کرنا ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ اس کی عظمت کا چرچا
کرنا ہماری محبت کا بھی تقاضہ ہے اور ایمان کا بھی۔ جولوگ اس محفل کا اہتمام دیکھ
کر ناک بھنوں چڑھاتے ہیں دراصل ان کے رشتہ غلامی میں کھوٹ ہے، اور ان کی محبت
داغدار ہے۔ ایک عاشق صادق اور محبت رسول کی تمنا تو وہ ہونی چاہیے جس کی ترجمانی
امام اہل سنت سرکار اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یوں کی ہے۔
خاک ہو جائیں عدد جل کر مگر ہم تو رضا
دم میں جب تک دم ہے ذکر ان کا سناتے جائیں گے
محفل
ذکر ولادت کی برکتوں اور فضیلتوں سے دینی کتابیں بھری ہوئی ہیں۔ ان تمام تفصیلات
سے واقفیت کے لیے علمائے کرام سے رابطہ کریں میں تو بس اتنا ہی لکھ کر اپنی اس
مضمون کو مختصر کرتا ہوں کیوں کہ ایسی محفلوں پر رحمت خداوندی کی برسات ہوتی ہے جو
لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں ان کی دینی اور دنیوی مصیبتیں دور ہوتی ہیں اور انہیں
دونوں جہان میں امن و عافیت اور راحت و آرام نصیب ہوتا ہے۔ پروردگار عالم ہمیں اور
آپ کو اپنے محبوب کے ثنا خوانوں میں داخل فرما کر دارین کی سعادتوں سے مالا مال
فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
تحرير:محمد فداء المصطفیٰ گیاوی
رابطہ نمبر: 9037099731
ڈومریا ،مرشد نگر بھنگیا، گیا، بہار
Bahut khoob
جواب دیںحذف کریںخاک ہو جائیں عدد جل کر مگر ہم تو رضا
جواب دیںحذف کریںدم میں جب تک دم ہے ذکر ان کا سناتے جائیں گے