أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللَّہُ نُورِی: اقوال آئمہ کی روشنی میں
اللہ رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے: "قَدْ جَاءَ کُم مِّنَ اللہِ نُورٌ وَکِتَبٌ مُّبِینٌ '' ترجمہ: بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔ (کنز الایمان،سورۂ المائدہ،آیت:120)۔ یقینا یہ مبارک مہینہ ربیع النور کا، نور والا مہینہ ہے جس میں ہم سب نبی آخر الزماں سید الثقلین ﷺ کی تشریف آوری ہوئی۔ عاشق مصطفی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں۔
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے
باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے
تارا نور کا
باغ طیبہ میں
سہانا پھول پھولا نور کا
مست ہو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا
یہ آیت مبارکہ جو میں نے اوپر پیش کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر ہمارے
حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو نور فرمایا ہے اور جمہور مفسرین اور ائمہ
کرام ومحد ثین عظام نے تصریح فرمائی ہے کہ نور سے مراد حضور صلی اللہ تعالی علیہ
والہ سلم ہیں اور کتاب مبین سے مراد قرآن مجید ہے۔آئیے ہم اقوال ائمہ کی روشنی میں
سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا۔
٭ صحابی رسول مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے
ہیں: قَدْ جَاءَ کُم مِّنَ اللَّہِ نُورٌ یعنی مُحَمَّدًا۔ترجمہ: بے شک آیا تمہارے پاس اللہ کی
طرف سے نور یعنی مصلیاللہ تعالی علیہ الہ وسلم (تفسیر ابن عباس، ص: 72)۔
٭ امام الکبیر علامہ امام جعفر محمد بن جریر الطبری رضی اللہ تعالی عنہ
فرماتے ہیں: قَدْ جَاءَ کُم مِّنَ اللہِ نُور۔ترجمہ: تحقیق آیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے
نور یعنی محمد صلی علیہ والہ سلم (تفسیربیضاوی، ج:1، ص: 418)۔
٭ علامہ علی بن محمد خازن رحمہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: قَدْ جَاءَ کُم مِّنَ اللہِ نُورٌ یعنی مُحَمَّدًا۔ترجمہ: تحقیق آیا تمہارے پاس اللہ کی
طرف سے نور یعنی محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم (تفسیر خازن، ج:1،ص:417)۔
٭ امام علامہ عبد اللہ بن احمد نسفی رحمہ اللہ تعالی علیہ اس آیت کریمہ کے
تحت فرماتے ہیں: وَالنُّورُ مُحَمَّدٌ عَلَیْہِ السَّلام ترجمہ: اور نور محمد صلی اللہ
علیہ وسلم ہیں۔ (تفسیرنسفی، ج:1،ص:417)۔
٭ امام علامہ فخر الدین رازی رحمہ اللہ تعالی علیہ اس آیہ کریمہ کے تحت
فرماتے ہیں: إِنَّ الْمُرَادَ بِالنُّورِ مُحَمَّدٌ وَبِالْکِتَبِ الْقُرْآنُ ترجمہ: بے شک نور سے مراد محمد صلی
اللہ تعالی علیہ و سلم اور کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔ (تفسیر کبیر،ج: 3،ص: 395)
٭حضرت علامہ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالی علی فرماتے ہیں۔ قَدْ جَاءَکُم مِّنَ اللہِ نُورٌ ہُوَ نُورُ النَّبِی اللہ. ترجمہ: تحقیق کہ آیا تمہارے پاس اللہ
کی طرف سے نور وہ نور نبی صلی اللہ علی والہ وسلم ہیں۔ (تفسیر جلالین شریف،ص:
111)۔
اور اسی طرح علامہ محمود آلوسی بغدادی رحمہ اللہ تعالی علیہ نے روح المعانی،
ج 6، ص: 87 پر، علامہ اسمعیل حقی رحمہ اللہ تعالی علیہ نے تفسیر روح البیان
شریف، ج:1 ص: 538 پر، امام ابومحمد بغوی رحمہ اللہ تعلی علیہ نے تفسیر معالم
التنزیل، ج:2، ص:23 پر، امام قاضی عیاض رحمہ اللہ علیہ نے شفا شریف میں
تحریر فرمایا کہ نو سے مراد رسول الہلال اللہ تعالی علی الا سلام ہیں اور کتاب
مبین سے مراد قرآن مجید ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور تقویٰ و طہارت اور ولایت و روحانیت والے ائمہ
کرام اور محدثین عظام نے اپنے اقوال و بیانات سے صاف طور پر ظاہر اور ثابت کیا کہ
محبوب خدا محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نور ہیں۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رضی اللہ تعالی عنہ لکھتے ہیں کہ: ہمارے حضور سراپا نور
صلی اللہ تعالی علیہ الہ وسلم نے فرمایا۔ '' أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللَّہُ نُورِی
أَنَامِنْ نُّورِ اللَّہِ وَکُلُّ الْخَلَاءِقِ مِنْ نُوْرِی '' ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے
میرے نور کو پیدا فرمایا، میں اللہ کے نور سے ہوں اور ساری مخلوقات میرے نورسے ہے۔
(مدارج النبوۃ، ج:2)۔
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد گرامی حضرت امام حسین رضی
اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ''إِنَّ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ کُنتُ نُورًا
بَیْنَ یَدَی رَبِّی قَبْلَ خَلْقِ ادَمَ بِأَرْبَعَۃِ عشر الف مِاءَۃِ عام''۔ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ
والہ وسلم نے فرمایا کہ میں آدم علیہ السلام کی پیدائش سے چو دہ ہزارسال پہلے اپنے
رب کے حضور ایک نور تھا۔ (زرقانی، ج:1،ص:49)۔
بڑے بڑے بزرگوں نے اپنی مستند کتابوں میں جو احادیث کریمہ نقل کی ہیں اس سے صاف
طور پر ظاہر اور ثابت ہے کہ ہمارے رسول اکرم سرور دوعالم صلی تعالی علیہ الہ وسلم
اللہ العزت کے نور ہیں۔اور ساتھ ہی امام عشق و محبت اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے نظر
آتے ہیں:
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
ہمارے حضور سراپا نور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم فرماتے ہیں: کُنتُ نَبِیًّا وَادَمُ بَیْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَد یعنی میں اس وقت بھی نہی تھا جب
حضرت آدم علیہ السلام جسم اور روح کے درمیان تھے۔ (مشکوۃ شریف،ج: 1،ص: 513)۔
اور ساتھ ہی علامہ اسمعیل حقی رحمہ اللہ تعالی علیہ نے روح البیان شریف میں، امام
علامہ علی بن برہان الدین حلبی رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے سیرت حلبیہ میں اور علامہ
امام یوسف بن اسماعیل نبہانی نے جواہر المار فی فضل النبی المختار میں نقل کیا کہ
ہمارے حضور نور علی نور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ سلم نے جبرئیل علیہ السلام سے
دریافت کیا کہ تمہاری عمر کتنی ہے؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ خدا کی
قسم میں اس کے سوا نہیں جانتا۔ یعنی مجھے اتنا معلوم ہے کہ چوتھے حجاب میں ایک
ستارا ستر ہزار سال کے بعد چمکتا تھا۔ '' ورَأَیْتُہُ اثْنَیْنِ وَسَبْعِینَ
اَلْفَ مَرَّۃٍ '' اور میں نے اس ستارے کو بہتر ہزار
مرتبہ دیکھا ہے۔ ہمارے حضور سراپا نور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔ ''یَا جِبْرِیلُ وَعِزَّۃِ رَبِّی أَنَا ذَالِکَ الْکَوْکَبُ''. اے جبریل! میرے رب کی عزت کی قسم وہ
ستارہ میں ہی تھا۔ (روح البیان، ج 3، ص: 543)۔
یہاں میں نے جتنی بھی دلیلیں پیش کی ہے و ہ تمام کے تمام حواجات کے ساتھ ذکر کیا
ہوا ہے۔ پھر بھی کسی کو یہ نہ سمجھ میں آئے کہ اللہ رب العزت نے سب سے پہلے کس چیز
کو پیدا کیاتو وہ ان تمام کتابوں کا اچھی طرح مطالعہ کرے کیوں کہ یہ تمام کتابیں
متفق علیہ ہیں اور اس میں کسی بھی طرح کی شک کن گنجائش نہیں ہے۔کیوں کہ صحاح ستہ
تمام ائمہ دین کے نزدیک معتبر ہے اور اس کا کوئی مخالف بھی نہیں اور ناہی کو ئی اس
کی مخالفت کرنے کی ہمت کر سکتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں اتباع سنت بنائے اور رسول صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کو سمجھ اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
تحرير:محمد فداء المصطفیٰ گیاوی
رابطہ نمبر: 9037099731
ڈومریا ،مرشد نگر بھنگیا، گیا، بہار
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں