حضور مفتی اعظم ہند: علامہ مصطفی رضا خان فاضل بریلوی ؒ
اس جہان رنگ و بو میں روزانہ بے شمار لوگ
پیدا ہوتے ہیں اور بے شمار لوگ کوچ کر جاتے ہیں۔ جو لوگ اپنے لیے پیدا ہو کر زندگی
بے مقصد تمام کر دیتے ہیں ان کی قبروں کے نام ونشان بھی مٹ جاتے ہیں اور کچھ عرصے
کے بعد ان کے خاندان کے لوگ بھی انہیں فراموش کر دیتے ہیں مگر جو نفوس قدسیہ اپنے
لیے نہیں بلکہ کسی مقصد عظیم کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور دین کے لیے جیتے ہیں ایسی
مقدس ہستیاں زمین کے اوپر ہوں تو بھی خلق کا ہجوم ان کے ارد گرد ہوتا ہے اور جب
قبر میں جاتے ہیں تو بھی وہ مرکز عقیدت کی حیثیت رکھتے ہیں مگر ایسی ہستیاں روز
روز نہیں پیدا ہوتیں بلکہ عرصہ دراز کے بعد جلوہ گر ہوتی ہیں۔ایسی ہی عظیم اور
نابغہ روز گار ہستیوں میں ہمارے آقائے نعمت،مرشد برحق، قطب عالم، حضور مفتی اعظم
حضرت مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا خان علیہ الرحمہ کی ذات ستودہ صفات ہے۔
ولادت شریف: حضور مفتیء اعظم ہند کی ولادت 22 /ذی الحجہ ھ(1310 ھ)مطابق 7
/ جولائی 1893 ء بروزجمعہ بوقت صبح صادق علامہ حسن رضا خاں قادری کے دولت سرائے
اقدس پررضا نگرمحلہ سوداگران بریلی شریف میں ہوئی۔(ویکپیڈیا، مفتی اعظم ہند امام
مصطفی رضا خان ؒ)۔
تعلیم و تربیت: چار سال چار دن کی عمر میں رسم بسم اللہ خوانی خود سیدی اعلیٰ حضرت امام
احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ نے کرائی اور تعلیمی نگہداشت کے لیے حضور حجتہ
الاسلام مولانا حامد رضا خان صاحب خلف اکبر امام اہل سنت کو خاص طور پر مقرر کیا
گیا جو حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے بڑے برادر تھے اور عمر میں ۱۸ سال بڑے تھے۔ حضور
مفتی اعظم ہند نے ۳ سال کی قلیل مدت میں قرآن مقدس ختم فرمایا اور ۱۸ سال کی عمر میں مروجہ
علوم عقلیہ ونقلیہ سے فارغ ہوئے۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا رحیم الہی منگلوری،
مولانا سید بشیر احمد علی جونا گڑھی، مولانا ظہور حسین رام پوری، حجت الاسلام حامد
رضا خان اور خاص طور پر سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا وسر کا رنوری میاں علیہم
الرحمہ ہیں۔ حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو اللہ پاک نے جو صلاحیتیں عطا فرمائی
تھیں محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد چالیس تک پہنچتی ہے۔(حیاتِ مفتی اعظم کے
تابندہ نقوش،ص:12)۔
بیعت و خلافت: آپ جب چھ ماہ کے ہوے تو اآپ کے والد محترم اعلی حضرت نے آپ کو حسن رضا خان
کے گود میں آپ دے دیا۔اور حضور حسن رضا خان ؒ نے چھ ماہ تین دن کے آل رحمن مصطفیٰ
رضا خان کے منہ میں ڈالی، داخل سلسلہ فرمایا اور صرف چھ مہینے تین دن کی عمر میں
تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا اور ساتھ ہی بشارت بھی عطا فرمائی
کہ یہ بچہ دین وسنیت کی خدمت کرے گا اور خلق خدا کو اس سے فیض پہنچے گا، اس بچے کی
نگاہ ولایت سے لاکھوں بھٹکے ہوؤں کو صراط مستقیم پر استقامت نصیب ہوگی۔ پھر دنیا
نے دیکھا کہ نوری گھرانے کے سرکارنوری کی پیشین گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت اور
کیوں نہ ہو؟ ایک ولی ابن ولی آل نبی کی زبان تھی اور ایک ہند ہی نہیں بلکہ عرب و
عجم جس کے فیضان سے مالا مال ہوئے اور اہل شک یقین کی منزل کے مسافر بن گئے اور سر
کارنوری میاں کے ایک نوری نے لاکھوں کو نوری بنا دیا۔ آج بھی ہم ان نوریوں کی
نورانیت سے مستفیض ہورہے ہیں (حیاتِ مفتی اعظم کے تابندہ نقوش،ص:12)۔
ترا نوری وہ ہے جس نے بنائے ان گنت
ترا قطرہ وہ ہے جس سے ملا دھارا سمندر کا
حضور مفتی اعظم کا انداز دعوت و تبلیغ: سرکار حضور مفتی اعظم ہند تعویذات کے سلسلے میں بڑے مشہور رہے اور
خدمت خلق تعویذات کے ذریعہ بھی آپ فرماتے تھے۔ تعویذ میں کیا لکھتے تھے اللہ کا
ذکر ہی تو! بسم اللہ الرحمن الرحیم پھر اس کے بعد جو کچھ لکھنا ہوتا جس مرض کے
ازالے کے لیے تعویذ لکھتے تھے اور اس کے حوالے سے دعائیں کرتے تھے۔
آج ہم لوگ بھی تبلیغ کے نام پر نکلے ہیں
اور دعوت و تبلیغ کے فریضے کو انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہماری تبلیغ کا
انداز کیا ہے؟ مجمع اکٹھا کیا جائے، پوسٹر شائع ہو، مجمع جم جائے، پھر ہم اللہ اور
اس کے رسول کی بات کرتے ہیں۔ اے مفتی اعظم آپ کی عظمتوں کو سلام! آپ کے لیے راتوں
کو مجمع نہیں سجایا جاتا تھا بلکہ آپ کا عالم یہ تھا جہاں بیٹھے لوگ مرید بننے آئے
تو تقریر شروع ہوگئی، کوئی تعویذ لینے آیا تو تقریر شروع ہو گئی، ہم رات کو ایک یا
ڈیڑھ گھنٹہ بولتے ہیں اور مفتی اعظم کا عالم یہ تھا کہ وہ صبح بھی بول رہے ہیں، دو
پہر میں بھی بول رہے ہیں، شام میں بھی بول رہے ہیں، ان کی تبلیغ کا عالم یہ ہے کہ
آپ یہ نہیں سوچتے کہ میں نصیحت کروں گا تو سامنے والے کو اچھا لگے گا یا برا لگے
گا؟ وہ تو یہ سوچتے تھے کہ میرا مولیٰ کس چیز میں راضی ہوتا ہے اور اس کے حبیب صلی
اللہ علیہ وسلم کس چیز میں راضی ہوتے ہیں۔
مفتی اعظم ہند کا لمحہ لمحہ دعوت و تبلیغ
میں صرف ہوتا نظر آتا ہے، کوئی تعویذ لینے آیا فرمایا: بیٹے!نماز پڑھتے ہو یا نہیں
پڑھتے؟ جب وہ خاموش رہتا تو فرماتے: بیٹا! پنج وقتہ نماز نہیں پڑھو گے تو مصیبت
نہیں آئے گی تو کیا آئے گی؟ آئندہ کے لیے وعدہ کرو کہ آج سے پنج وقتہ نمازپڑھو گے
تم ادھر نماز پڑھو ان شاء اللہ ادھر تمہاری مصیبتیں دور ہو جائیں گی۔ کوئی داڑھی
منڈایا ہوا تر شوایا ہوا آتا تو حضور مفتی اعظم نصیحت فرماتے کہ داڑھی رکھو،
تمھاری مصیبتیں دور ہو جائیں گی۔ مفتی اعظم نے تبلیغ کا بڑا نرالا انداز اختیار کر
لیا تھا، میں نے تبلیغ کرنے والا ایسا نہیں دیکھا جو صبح و شام اس طریقے سے تبلیغ
کرتا ہو، ہم مجمع کا انتظار کرتے ہیں اور حضور مفتی اعظم کا عالم یہ تھا کہ مجمع
ان کا انتظار کرتا تھا۔ مفتی اعظم ہند نے کبھی کسی انسان کی مروت نہیں کی اس
اعتبار سے کہ میں حق بات کہوں گا تو وہ ناراض ہو جائے گا بلکہ مفتی اعظم ہند کا
عالم یہ تھا کہ ہمیشہ آپ کے پیش نظر مولیٰ کی رضا اور اس کے پیارے محبوب صلی اللہ
علیہ وسلم کی رضا ر ہتی تھی۔(حیاتِ مفتی اعظم کے تابندہ نقوش،ص:25)۔
مریض کی عیادت: مفتی اعظم علیہ الرحمۃ والرضوان کو معلوم ہو جا تا کہ آج فلاں بیمار ہے تو
آپ فورا عیادت کو پہنچتے۔ صدر الشریعہ نمبر (ماہنامہ اشرفیہ) میں مرقوم ہے کہ حضرت
صدر الشریعہ اور مفتی اعظم دونوں حج کے ارادے سے چلے ہمبئی پہنچ کر حضرت صدر
الشریعہ کی طبیعت زیادہ علیل ہوگئی اور با وجود ے کہ دونوں بزرگ کی قیام گاہ دوری
پر تھی مگر مفتی اعظم ہند روزانہ حضور صدر الشریعہ کی عیادت کے لیے تشریف لاتے
یہاں تک کہ آپ جہاز پر سوار ہونے تشریف لے گئے اور آپ کے روانہ ہوتے وقت حضرت
صدرالشریعہ کا وصال ہو گیا۔ مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کا عیادت مریض کے سلسلہ میں
اتباع سنت پر عمل درآمد اتنا سخت تھا کہ وقت کا گورنر اکبر علی خان (یوپی) نے آپ
سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی مگر آپ اس وقت ایک مریض کی عیادت کے لیے قدم اٹھا
چکے تھے لہذا اتباع سنت کے لیے جو قدم اٹھ چکے تھے وہ پیچھے نہ ہے، آپ نے گورنر کی
ملاقات پر اتباع سنت کو ترجیح دی۔ دیکھنے والے حیران تھے کہ آج وہ آ رہا ہے کہ جس
کے دیدار کی اہل دنیا آرزوئیں کرتے ہیں مگر مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
اس سے ملاقات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے محبوب کبریا کی ایک عظیم سنت پر عمل پیرا ہونے
کے لیے تشریف لے جارہے ہیں۔(حیاتِ مفتی اعظم کے تابندہ نقوش،ص:54)۔
وصال پر ملال: حضور مفتی اعظم علامہ مصطفی رضا نوری بریلوی تا عمر اہل اسلام کو اپنے
علمی، روحانی اور عرفانی فیوض سے مالا مال فرماتے رہے۔ اللہ رب العزت کی مرضی و
مشیت کے مطابق علم و فضل اور زہد و تقا کا یہ روشن ستارہ بانوے برس کی عمر میں ۱۴ محرم الحرام ۱۴۰۲ھ بمطابق ۱۲ نومبر ۱۹۸۱ء بروز جمعرات شب ایک
بج کر چالیس منٹ پر غروب ہو گیا۔ جوں ہی ریڈیو کے ذریعہ آپ کے وصال پر ملال کی خبر
ا کناف عالم میں نشر ہوئی، پورے عالم اسلام میں رنج وغم کی فضا چھا گئی۔ سارا
ماحول سوگوار ہو گیا۔ مختلف ممالک سے آپ کے عقیدت مند، مریدین و متوسلین جوق در
جوق اپنے اس عظیم روحانی رہ نما کے آخری دیدار کے لیے بریلی جمع ہونے لگے۔۱۵ محرم الحرام۱۴۰۲ھ بروز جمعہ صبح
تقریباً نو بجے آپ کے جسد خاکی کو نسل دیا گیا۔ صبح تقریب دس بجے جنازہ مبارک
لاکھوں عشاق کی اشک بار آنکھوں سے خراج عقیدت و محبت وصول کرتا ہوا کلمہ طیبہ اور
درود وسلام کی پُر کیف و روحانی گونج میں کا شانہ اقدس سے برآمد ہوا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ہر دل تڑپ رہا تھا، ہر آنکھ
برس رہی تھی، ہرفرد مغموم تھا گویا انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو اپنے اس
عظیم محسن کو آخری آرام گاہ تک پہنچانے کے لیے بریلی میں امنڈ آیا تھا۔ تقریباً دو
پہر سوا تین بجے نماز جنازہ ادا کی گئی۔ جس کی امامت پیر طریقت مولاناسید مختار
اشرف اشرفی الجیلانی الملقب بہ سرکار کلاں کچھوچھوی نے کی۔ اخباری رپورٹوں کے
مطابق نماز جنازہ میں تقریباً پانچ لاکھ اور جلوس جنازہ میں تقریباً میں لاکھ
مسلمانوں نے شرکت کی۔ حکومتِ وقت کے وزرا اور بیرونِ ملک کے سفرا و مشاہیر بھی
بریلی حاضر ہوئے۔ تقریباً ہر زبان کے ملکی و بین الاقوامی اخبارات ورسائل نے حضرت
نوری بریلوی کے وصال پر ملال پر تعزیتی پیغامات شائع کیے۔(حیاتِ مفتی اعظم کے
تابندہ نقوش،ص:55)۔
تحرير:محمد فداء المصطفیٰ گیاوی
رابطہ نمبر: 9037099731
ڈومریا ،مرشد نگر بھنگیا، گیا، بہار
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں