دہلی کا سیاسی منظر نامہ
اس میں کوئی دو
رائے نہیں کہ ہمارے ملک کی راجدھانی دہلی ایک منفرد سیاسی قلعہ ہے جو بھارتی سیاست
کی پیچیدگیوں کا آئینہ دار ہے۔ یہ وہ قلعہ ہے جس کو انتخابی طور پر فتح کرنا نریندر
مودی کے لیے ایک خواب ہی رہا ہے۔ حتیٰ کہ 2014 کے عام انتخابات میں، جب مودی کی قیادت
اور شخصیت کو پورے ملک میں ایک تبدیلی کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا، اور ''اب کی
بار مودی سرکار'' کا نعرہ ہر گلی کوچے میں گونج رہا تھا، تب بھی دہلی نے ان کی
جماعت کو اپنی سرزمین پر قدم جمانے کا موقع نہ دیا۔ دہلی کی یہ مزاحمت بھارتیہ
جنتا پارٹی کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی سیاسی گتھی بن چکی ہے۔ مغربی بنگال کی طرح
دہلی بھی ان چند علاقوں میں شامل ہے جہاں نریندر مودی اور ان کی جماعت کو بار بار
شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دہلی کا سیاسی منظرنامہ زعفرانی سیاست دانوں اور پالیسی
سازوں کے لیے ایک معمہ بن گیا ہے جسے جتنی بار سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ
اتنا ہی الجھتا چلا جاتا ہے۔
یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ دہلی کے
عوامی مسائل اور جذبات کو سمجھنے میں اروند کجریوال نے اپنی منفرد حکمت عملی کے ذریعے
نریندر مودی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کم از کم دہلی کی سیاست میں یہ کہنا بالکل درست
ہوگا کہ کجریوال کی حکمت عملی اور عوام سے جڑنے کی صلاحیت نے انہیں ایک مضبوط مقامی
لیڈر کے طور پر اُبھارا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ کجریوال نے دہلی میں ایک
ایسی سیاسی حکمت عملی اپنائی ہے جو مودی کی مقبولیت کے اثر کو زائل کرنے میں کامیاب
رہی۔ دہلی کی سیاست میں یہ منفرد پہلو اس بات کا ثبوت ہے کہ محض قومی سطح کی مقبولیت
کسی لیڈر یا جماعت کے لیے مقامی سیاست میں کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتی۔ دہلی کے
عوام کے مسائل، ان کی ترجیحات، اور ان کے سیاسی رجحانات کو سمجھنا اور ان کے مطابق
حکمت عملی اپنانا ایک لازمی امر ہے، اور یہی وہ میدان ہے جہاں کجریوال نے مودی کو
پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
اروند کجریوال کی دہلی میں سیاسی کامیابی
کی ایک بڑی وجہ ان کی زندگی کا وہ سفر ہے جو سیاست کے میدان میں قدم رکھنے سے قبل
انہوں نے طے کیا۔ ان کی شخصیت ایک عام انسان کی مانند تھی، جو بیوروکریسی کے گمشدہ
فائلوں میں یا سماجی خدمت کے میدان میں سرگرم نظر آتی تھی۔ اس کے برعکس، نریندر
مودی ایک تجربہ کار سیاستدان تھے، جو گجرات جیسے اہم ریاست کے وزیراعلیٰ کے طور پر
تقریباً پندرہ برس تک خدمات انجام دے چکے تھے۔ ان کے پاس سنگھ اور بی جے پی کا
مضبوط نیٹ ورک بھی تھا، جو ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی پوری صلاحیت
رکھتا تھا۔ مودی کی قیادت نے شمالی ہندوستان کے وسیع علاقوں کو متاثر کیا، لیکن
دہلی کی سرزمین پر وہی اثر کیوں نہیں دکھا؟ اس سوال کا جواب دہلی کی منفرد سیاسی
اور سماجی ساخت میں پوشیدہ ہے۔
دہلی ایک ایسا شہر ہے جہاں ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے تعلیم یافتہ
اور باشعور افراد بستے ہیں۔ یہ لوگ بہتر مستقبل کی جستجو میں ہوتے ہیں، ان کے لیے
کسی بھی سیاسی رہنما کی شبیہ نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ اروند کجریوال کی شبیہ ایک عام
آدمی کی تھی جو ان کے مسائل کو سمجھتا تھا اور ان کے حل کے لیے عملی طور پر کام
کرنے کا عزم رکھتا تھا۔دہلی کے عوام، جو زیادہ تعلیم یافتہ نہ بھی ہوں، پر امن
ماحول اور بنیادی سہولیات کے خواہاں ضرور ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے ان تمناؤں کو
سمجھا اور بہت واضح انداز میں ان کے پورا ہونے کا یقین دلایا۔ اس کے برعکس، نریندر
مودی اور بی جے پی کی جانب سے اس نوعیت کی یقین دہانی یا عوامی مسائل کی اتنی واضح
تفہیم کا فقدان نظر آیا۔ کجریوال کی سب سے بڑی طاقت یہ تھی کہ ان کی جماعت کے پاس
ماضی کا کوئی سیاسی بوجھ نہیں تھا۔ عام آدمی پارٹی کی شروعات ایک نئے عہد کے وعدے
کے ساتھ ہوئی، جس نے دہلی کے عوام کو متاثر کیا۔ عوام نے محسوس کیا کہ یہ ایک ایسی
جماعت ہے جو ان کے لیے ایک صاف ستھری سیاست کا نمونہ پیش کر سکتی ہے۔ یہی اعتماد
اور یقین وہ عوامل تھے جنہوں نے دلی کے عوام کو کجریوال کے ساتھ کھڑے ہونے پر
مجبور کیا۔
یہ امر بھی مسلم ہے کہ بھارتیہ جنتا
پارٹی کا نظریہ، جو کہ تشدد پسندی، تقسیم، اور نفرت کے اصولوں پر مبنی سمجھا جاتا
ہے، دلی کے باشعور عوام کے لیے ناقابل قبول رہا ہے۔ دہلی کے لوگ ایک پرامن اور ہم
آہنگ ماحول چاہتے ہیں، جہاں مختلف طبقات ایک ساتھ خوشحالی کے ساتھ رہ سکیں۔ یہی
وجہ ہے کہ نریندر مودی کی شمالی ہندوستان میں مقبولیت کے باوجود دہلی کے عوام نے
انہیں مسترد کیا۔ یہ عوامی فیصلہ 2020 کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران بالکل درست
ثابت ہوا، جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے دہلی کے پرامن ماحول کو شدید نقصان پہنچایا۔
ان فسادات میں شمال مشرقی دہلی بری طرح متاثر ہوئی، اور مرکزی حکومت کی زیرِ
کنٹرول پولیس کا رویہ انتہائی جانبدارانہ اور غیر پیشہ ورانہ رہا۔ مسلمانوں کے
ساتھ کیے گئے ناروا سلوک نے پولیس کے کردار پر سنگین سوالات کھڑے کیے۔ ان واقعات
نے یہ واضح کر دیا کہ دہلی کے لوگ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریے کو اپنے معاشرتی
ڈھانچے پر غالب نہیں ہونے دینا چاہتے۔ دوسری طرف، اروند کجریوال کی قیادت سے دہلی
کی مسلم اقلیت کو جو امیدیں تھیں، وہ بھی پوری طرح پوری نہیں ہوئیں۔ کجریوال نے
شاہین باغ تحریک، کورونا کے دوران مسلمانوں کے مسائل، اور دہلی فسادات جیسے اہم
مواقع پر وہ مضبوط مؤقف اختیار نہیں کیا جس کی ان سے توقع تھی۔ یہ رویہ مسلمانوں
کے دل میں یہ تاثر پیدا کرنے کا باعث بنا کہ ان کے اہم مسائل پر عام آدمی پارٹی بھی
سنجیدہ نہیں ہے۔
یہ صورت حال دہلی کے عوام کے لیے ایک
واضح پیغام تھی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریات کے تسلط کو روکنے کے لیے انہیں
اپنی سیاسی ترجیحات میں محتاط رہنا ہوگا۔ دلی کے عوام نے جس سمجھداری کا مظاہرہ کیا،
وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے لوگ نہ صرف اپنے حق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں بلکہ سیاسی
جماعتوں کے نظریات اور کردار کو گہرائی سے پرکھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ دلی کے
فسادات کے اصل ذمہ دار بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے نظریے کے حامل افراد ہی سمجھے
جاتے ہیں، جنہوں نے فرقہ واریت کو ہوا دے کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ دہلی
کے اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی نے یہی حکمت عملی اپنائی، جہاں اروند کجریوال
کے مقابلے میں نریندر مودی کو مرکزی شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا۔ اگر عام آدمی
پارٹی کے پوسٹروں پر کجریوال کی صاف شبیہ نمایاں تھی، تو بی جے پی نے مودی کی تصاویر
کے ذریعے عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کی۔
الیکشن کا یہ دور منفرد اس لیے بھی ہے
کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے کجریوال کی صاف ستھری اور بدعنوانی سے پاک امیج کو
داغدار کرنے کے لیے کئی الزامات لگائے ہیں۔ ان الزامات کے تحت کجریوال کو جیل بھیجا
گیا، اور ان کی سرکاری رہائش گاہ کو ایک متنازع مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا۔ بی جے پی
نے اس بیانیے کو آگے بڑھاتے ہوئے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ کجریوال، جو
خود کو عام انسانوں کا نمائندہ کہتے ہیں، دراصل ایک ‘‘شیش محل’’ میں رہ کر پرتعیش
زندگی گزارتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے ان الزامات کا بھرپور جواب دیا اور بی جے پی
کی قیادت کو ان کے اپنے طرزِ زندگی پر گھیرنے کی کوشش کی۔ کجریوال کی جماعت نے مودی
کو ایک ایسے لیڈر کے طور پر پیش کیا جو خود کو ‘‘چائے والا’’ کہہ کر عام آدمی کی
نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ ایک راجا کی طرح ‘‘راج محل’’ میں
رہتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے یہ موقف اختیار کیا کہ مودی عوامی مسائل سے بے خبر ہیں
اور ان کی زندگی کا طرز عام جمہوری رہنماؤں سے زیادہ ایک بادشاہ کی طرح ہے۔
یہ بیانیہ دہلی کے عوام کے لیے ایک اہم
موڑ تھا، کیونکہ اس نے دونوں جماعتوں کے نظریات اور قیادت کے کردار کو عوامی بحث
کا مرکز بنایا۔ کجریوال اور مودی کے درمیان یہ تقابل دہلی کے عوام کو اس بات کا
موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ نہ صرف لیڈروں کے وعدوں بلکہ ان کی اصل شبیہ اور طرزِ
عمل کا بھی جائزہ لیں، جو ان کی روزمرہ زندگی اور مسائل پر براہ راست اثر ڈال سکتا
ہے۔ ظاہر ہے کہ دہلی کے عوام کے لیے موجودہ سیاسی صورت حال میں نہ صرف مسائل کے حل
کی امید بنیادی اہمیت رکھتی ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کون سی جماعت ان
مسائل کے حل کے لیے بہتر طور پر تیار ہے۔ دہلی میں فضائی آلودگی کا مسئلہ اس قدر
سنگین ہو چکا ہے کہ یہاں کے لوگوں کی اوسط عمر متاثر ہو رہی ہے۔ تعلیم، صحت، اور
روزگار جیسے اہم مسائل ابھی بھی جوں کے توں ہیں، اور ان پر سیاست کرنے کے بجائے
عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
اگر بھارتیہ جنتا پارٹی دہلی کے مسائل
کو لے کر عام آدمی پارٹی کو گھیرنے کی کوشش کرے گی، تو یہ خود اس کے لیے ایک مشکل
امتحان ہوگا۔ ملک گیر سطح پر بی جے پی کی پالیسیوں نے روزگار، صحت، اور تعلیم کے
شعبوں میں جو سنگین چیلنجز پیدا کیے ہیں، ان سے دہلی بھی متاثر ہوئی ہے۔ ان مسائل
کی وجہ سے دہلی کے عوام کے سوالات زیادہ تر بی جے پی کی طرف ہی ہوں گے، اور ان کے
پاس ان سوالات کا کوئی تسلی بخش جواب نظر نہیں آتا۔ اروند کجریوال کی قیادت میں
عام آدمی پارٹی نے دہلی میں کئی اہم فلاحی اسکیمیں متعارف کرائی ہیں، اور ان کی
کارکردگی کا موازنہ نریندر مودی کی مرکزی حکومت کی کارکردگی سے کیا جا رہا ہے۔
حالانکہ، اگر کجریوال کی شبیہ کچھ کمزور ہوئی ہے، تو نریندر مودی کے تئیں عوام کی
وہ جذباتی وابستگی بھی کم ہوئی ہے جو پہلے موجود تھی۔ 2024 کے عام انتخابات کے
نتائج نے اس تبدیلی کو واضح طور پر ظاہر کر دیا ہے۔ دہلی کے عوام یہ بھی یاد رکھیں
گے کہ اروند کجریوال کی حکومت کو کس طرح لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے ہراساں کیا گیا
اور ان کے اختیارات محدود کیے گئے۔ یہ بی جے پی کی پالیسیوں کا ایک ایسا پہلو ہے
جسے عوام نظر انداز نہیں کریں گے۔
اس بار کا انتخاب کانگریس کے لیے بھی ایک
چیلنج ہے، جو شیلا دیکشت کے بعد اب تک اپنی سیاسی قوت کو منظم نہیں کر پائی۔ لیکن
اصل جنگ عام آدمی پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان ہوگی۔ دونوں جماعتوں کی
حکمت عملی، قیادت، اور عوام سے جڑنے کی اہلیت ہی فیصلہ کرے گی کہ کون فاتح ہوگا۔
اس سب کے باوجود، دہلی کے عوام کے لیے یہ انتخاب ایک بڑا امتحان ہوگا۔ کیا وہ ایسی
قیادت منتخب کر پائیں گے جو انہیں ایک پرامن، ترقی یافتہ، اور بہتر مواقع فراہم
کرنے والی دہلی دے سکے؟ یا پھر وہ اسی سیاسی ہلچل کا حصہ بنیں گے جو ان کے مسائل کو
مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے ہمیں انتخابی نتائج کا
انتظار کرنا ہوگا۔
تحریر: محمد فداء ا لمصطفیٰ قادریؔ
رابطہ نمبر:9037099731
ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی،ملاپورم،کیرالا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں